• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک سال اور ختم ہو گیا۔ اور ایک سال اور شروع ہو گیا۔ دنیا کی دیکھا دیکھی ہم نے بھی نیا سال منانا شروع کر دیا ہے ورنہ ہمارے بزرگ تو کہا کرتے تھے
غافل تجھے دیتا ہے یہ گھڑیال منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی
اور تو اور ہمارے منفرد غزل گو شاعر انور شعور کو بھی سال ختم ہونے پر ایک سال اپنی عمر کم ہونے اور ایک سال اور بڑے ہو جانے کا احساس ہو گیا ہے۔ انہوں نے اسی اخبار میں نئے سال پر جو قطعہ لکھا ہے اس میں کہا ہے
کم ہو گئی ہے مہلت عمر ایک سال اور
اب ایک سال اور بڑے ہو گئے ہیں ہم
یہاں بڑے ہو جانے کا احساس تو ہے مگر ایسا لگتا ہے جیسے ایک سال اور بڑا ہو جانے پر اتنی خوشی نہیں ہے جتنی فکر اس بات کی ہے کہ عمر کی مہلت ایک سال اور کم ہو گئی ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم ازلی طور پر ہی یاسیت زدہ رہے ہیں اور یہ ہماری تاریخ کی دین ہے۔ ہماری تاریخ ہی کچھ ایسی رہی ہے کہ ہمیں روشنی کے جھماکوں میں بہت کم سفر کرنے کا موقع ملا ہے، زیادہ تر ہم اندھیروں میں ہی ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے ہیں۔ ہم اس دنیا کے بجائے دوسری دنیا کی فکر میں اتنے ہلکان ہوئے جاتے ہیں کہ یہ دنیا ہمارے ہاتھ سے نکلی جاتی ہے۔ اب اگر میں یہ کہوں تو لوگ ناراض ہو جائیں گے کہ اسی لئے ہمارا تخلیقی اور اختراعی سفر اتنا مختصر رہا ہے کہ دنیا آگے نکل گئی اور ہم پیچھے رہ گئے۔ میں ادب کی بات نہیں کر رہا ہوں کہ ادیب بے چارے تو اپنی سی کرتے ہی رہتے ہیں۔ زمانے کے نوحے اور مرثیے تو جیسے ان کی قسمت میں لکھے گئے ہیں، میں عام معاشرے کی بات کر رہا ہوں۔
اب نئے سال پر وہ شعر بھی پڑھ لیجئے جو ڈاکٹر طارق شفیع نے بھیجے ہیں۔ ڈاکٹر طارق انسانوں کے زخمی گھٹنوں، ٹخنوں اور ہاتھ پائوں کے جوڑوں کی فزیو تھراپی کرتے ہیں۔ باذوق آدمی ہیں، اچھے شعر یاد رکھتے ہیں۔ انہوں نے سال کے اختتام پر یہ شعر بھیجے ہیں
یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا اور اس پہ چھائوں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پہ، پھر اپنے پائوں تلاش کرنا
نکل کے شہروں میں آبھی جانا چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر
بلند و بالا عمارتوں میں پھر اپنے گائوں تلاش کرنا
ان شعروں کے خالق کوئی احمد سلمان صاحب ہیں۔ ہندوستان میں رہتے ہیں۔ شاید شمیم حنفی صاحب انہیں جانتے ہوں۔ کہنے کو تو یہ شعر انہوں نے ساری دنیا کے بارے میں کہے ہیں، لیکن ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے یہ ہمارے لئے کہے گئے ہیں۔ یہ ہم ہی تو ہیں جو سورج پر گھر بنا کر چھائوں تلاش کر رہے ہیں اور دلدلوں میں کھڑے ہو کر اپنے پائوں تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایاز امیر نے صحیح لکھا ہے کہ آج کا پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے، ضیاء الحق کا پاکستان ہے۔ ضیاء الحق کے دور میں ہمارے معاشرے کو جس ڈگر پر ڈال دیا گیا ہے اس سے سرمو انحراف کرنے کی بھی کسی میں ہمت نہیں ہے۔ اب یہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہو یا مسلم لیگ کی، ضیاء الحق کی حکومت کے بنائے ہوئے ان قوانین پر عمل درآمد کرنے کی پابند ہے جنہوں نے ہمارے معاشرے کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہمار ے ہاں تنگ نظری، انتہا پسندی اور فرقہ پرستی نے اتنی گہری جڑیں پکڑ لی ہیں کہ انہیں اکھاڑنا ممکن نظر نہیں آتا۔ یہ جو اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور ان کے محلّوں پر پے در پے حملے ہوتے ہیں اور کئی لوگ توہین مذہب کے بہانے اپنے ذاتی جھگڑے نپٹاتےہیں وہ ہمارے سامنے ہیں۔ ہم ان پر تھوڑی دیر کے لئے افسوس کر لیتے ہیں اور پھرخاموش ہو جاتے ہیں، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ سندھ حکومت زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر پابندی لگاتی ہے، اور کہتی ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کی لڑکی کا مذہب تبدیل نہیں کرایا جا سکتا۔ لیکن ہمارے زرداری صاحب کچھ حلقوں کے دبائو میں ایسے آتے ہیں کہ ان سے اس قانون پر نظرثانی کا وعدہ کر لیتے ہیں حالانکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے مذہب کو بھی کاروبار کا درجہ دے رکھا ہے۔ اور زرداری صاحب بظاہر ایک روشن خیال جماعت کے لیڈر ہیں۔ ہماری فوج نے ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیئے ہیں اور ان کے قبضے سے بہت سے علاقے خالی کرا لئے ہیں لیکن تنگ نظری، فرقہ پرستی اور انتہا پسندی سے ہمیں چھٹکارا نہیں ملا ہے۔ اس کا مظاہرہ ہمیں آج بھی دہشت گردی کے اکا دکا واقعات کی شکل میں دکھائی دیتا رہتا ہے۔ لیکن ہم اس طرف توجہ کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے کیونکہ اس طرف توجہ کریں گے تو ہمیں پنجاب کی طرف آنا پڑے گا۔ اور پنجاب اس مقصد کے لئے ممنوعہ علاقہ ہے۔ حالانکہ کون نہیں جانتا کہ ان عناصر کے تربیتی مرکز کہاں ہیں۔ رحیم یار خاں کا تازہ واقعہ ہمارے سامنے ہے۔ اب یہ کام فوج کا تو نہیں ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے ساتھ معاشرے سے تنگ نظری اور فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹنے کی بھی کوشش کرے۔یہ کام ہماری سول حکومت کا ہے۔ اور ہماری سول حکومت کو انتخابات میں ووٹ چاہئیں۔ اس لئے ہم مجبور ہیں سورج پہ گھر بنا کر چھائوں تلاش کرنے اور دلدل پر کھڑے ہو کر اپنے پائوں تلاش کرنے پر۔ ایسے میں نئے سال کی خوشیاں مناتے ہوئے اگر اپنے بزرگوں کی طرح ہمیں بھی گھڑیال کی منادی یاد آتی ہے تو یہ بھی ہماری مجبوری ہے۔

.
تازہ ترین