• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف نے اکیڈمی آف لیٹرز کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے دانشوروں کو دعوت دی ہے کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف قلم کا جہاد کریں۔ اس کے لئے انہوں نے پچاس کروڑ روپے کی رقم بھی مختص کی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ وزیر اعظم کے اعلان کے پس منظر میں یہ مفروضہ ہے کہ پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ایک مخصوص بیانیہ کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے اور اس بیانئیے کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی فوج نے ہتھیار بند پاکستان دشمن جہادیوں کا کافی حد تک خاتمہ کیا ہے لیکن پاکستان سے اس بیانیہ کا خاتمہ نہیں کیا گیا جو دہشت گردوں کو پیدا کرتا ہے۔
پاکستان میں انتہا پسندی مذہبی نفرتیں بھی پیدا کرتی ہے اور سماج کی اجتماعی فکر کو تنگ نظری میں تبدیل کردیتی ہے۔ پاکستان میں اس طرح کی تنگ نظری نے خواتین اور مختلف طرح کی اقلیتوں کا جینا حرام کردیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی سماج میں ایسے زہریلے خیالات کیسے پیدا ہوئے؟ عصر حاضر کے اکثر دانشور اسے ضیاء الحق کی اسلامائزیشن اور افغان جنگ کا ثمر قرار دیتے ہیں۔ یہ دعوی کافی حد تک درست ہے کہ ضیاء الحق نے مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دی اور یہ بھی درست ہے کہ افغان جہاد کے نام پر بہت کچھ لکھا گیا جو آخرکار انتہاپسندی کی شکل میں سامنے آیا۔
لیکن اگر غور کریں تو ضیاء الحق کے لانے میں پاکستان قومی اتحاد نے بہت بڑا کردار ادا کیا تھا اور قومی اتحاد کا نعرہ نظام مصطفیٰ قائم کرنے کی آڑ میں ریاست کو خالص مذہبی بیانئیے پر چلانا تھا۔ اس سے پہلے بھٹو دور میں احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جا چکا تھا، جمعہ کی چھٹی، شراب اور ریس پر پابندی لگائی جا چکی تھی۔ بھٹو سے پیشتر جنرل یحییٰ خان نے بہت سے مذہبی قوانین نافذ کئے تھے اور اس کے جرنیلوں (جنرل شیر علی وغیرہ) نے تعلیمی اداروں اور میڈیا سے ان لوگوں کی تطہیر کی تھی جو ان کی اسلام پسندی کے معیار پر پورے نہیں اترتے تھے۔ بلکہ اس سے بھی پہلے قرارداد مقاصد کی منظوری سے ریاست کو مذہبی بنانے کا آغاز ہو چکا تھا۔
الغرض انتہا پسندی کے پس منظر میں جو مذہبی بیانیہ ہے وہ پاکستان بننے کے فوراً بعد کسی نہ کسی شکل میں سامنے آنا شروع ہو گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ اس کی بنیادیں انگریز تاریخ دانوں نے بہت پہلے استوار کردی تھیں۔ انگریزوںنے ہندوستان کی تاریخ کو مسلمان اور ہندو ادوار میں تقسیم کرکے مذہبی تعصب کا آغاز کردیا تھا۔ ہندوستانی تاریخ کے بارے میں انگریزوں کا دیا ہوا یہ بیانیہ آج بھی من و عن تسلیم کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی سلیبس میں اسلامی دور کے نام پر مختلف بادشاہوں کی تعریف کے پل باندھے جاتے ہیں۔ باہر سے آنے والے اور حملہ کرنے والے لٹیروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس پر کوئی روشی نہیں ڈالی جاتی کہ بیرونی حملہ آور مقامی ہندووں اور مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے تھے اور دونوں کو برابر کا لوٹتے اور قتل کرتے تھے۔
انگریزوں کا ہندوستان کی تاریخ کو مسلمان اور ہندو ادوار میں تقسیم کرنے کا مقصد عوام کو تقسیم کرنا اور اپنی حکومت چلانا تھا۔ انگریزوں کی تاریخ کی مذہبی تقسیم سے کئی مغالطے جنم لیتے ہیں۔ اس طرح کی تقسیم سے دونوں مذہبوں کے مذہبی قوم پرست اپنی اپنی مرضی کے واقعات ڈھونڈھ لیتے ہیں جس سے وہ مذہبی بنیاد پرستی کی تحریکیں چلا سکیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے: مسلمان بنیاد پرست مسلمان بادشاہوں کی تعریفیں کرتے ہیں اور ہندو قوم پرست انہی بادشاہوں کے ظلم و جبر کے جھوٹے سچے قصے سنا کر ہندو عوام کو ورغلاتے ہیں۔
انگریزوں کے دئیے ہوئے مسلمان دور سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید مسلمان حکمران مسلم عوام سے رعایت برتتے تھے اور ہر طرح کے ہندو کو ظلم و جبر کا نشانہ بناتے تھے۔ ایسا ہر گز نہیں تھا: مسلمان حکمران اور اشرافیہ نچلی ذاتوں سے مذہب تبدیل کرکے مسلمان ہونے والوں کو انتہائی گھٹیا سمجھتے تھے۔ ان کے دور میں نو مسلموں کی حالت زار ویسی ہی تھی جیسے انگریزوں کے دور میں عیسائی ہونے والوں کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ جب ہم مغلیہ دور کی تاریخ پڑھتے ہوئے بابر کے حملوں کا ذکر کرتے ہیں تو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے وہ کافروں کے ساتھ جہاد کر رہا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پانی پت کی مشہور لڑائی میں اس کا مقابلہ ابراہیم لودھی سے تھا۔ بابر کے حملوں سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے اس نے صرف ہندووں کو قتل کیا تھا اور مسلمانوں کو کچھ نہیں کہا تھا۔ بابا گورو نانک نے بابر بانی میں بابر کے حملوں کا آنکھوں دیکھا احوال لکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے مسجد و مندر کو ایک ہی طرح سے مسمار کیا۔ وہ بابر کے حملوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
پاپ کی جنج لے کابلوں دھایا
جوری منگے دان وے لالو
(وہ کابل سے گناہوں کی بارات لے کر آیا ہے اور زبردستی ٹیکس وصول کرتا ہے)
بات مسجدوں اور مندروں کی ہو رہی ہے تو کچھ ذکر سومنات کے مندر کا بھی ہوجائے۔ مسلمان تاریخ دان کہتے ہیں کہ سومنات کے مندر سے اتنا سونا ملا کہ اسے سو اونٹوں پر لاد کر غزنی لے جایا گیا۔ اس بارے میں مشہور تاریخ دان پامیلا تھاپر نے اس زمانے کے تمام شواہد اور مسودوں کی روشنی میں تحقیق کی ہے۔ وہ اپنی مشہور تصنیف ’’سومنات‘‘ میں کہتی ہیں کہ اول تو سومنات کا مندر اتنا بڑا ہو ہی نہیں سکتا کہ جس میں اتنا مال و دولت جمع ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ معمولی سا مندر تھا جس کی نگہداشت مقامی راجے کرتے تھے۔ دوم یہ کہ کوئی شہادت نہیں ملتی کہ محمود غزنوی سومنات تک پہنچ پایا تھا۔ ویسے بھی یہ دعوی ناقابل یقین ہے کہ ایک علاقائی مندر سے سو اونٹوں پر لاد کر لے جانے والا سونا ملا ہو۔ اس تحقیق کی روشنی میں سومنات پر محمود غزنوی کے حملے کی داستان فرضی لگتی ہے۔ لیکن یہ کہانی اس لئے زندہ رہی کہ مسلمان تاریخ دان اپنے بادشاہوں کے کارنامے بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے۔ ہندو قوم پرستوں کو یہ داستانیں اس لئے قبول تھیں کہ وہ اس سے دکھا سکتے تھے کہ مسلمانوں کے آنے سے قبل ہندوستان کتنا امیر تھا اور مسلمانوں نے اسے کس طرح سے لوٹا۔
پاکستان میں وہی تاریخ پڑھائی جاتی ہے جسے مسلمان بادشاہوں کے مصاحبوں اور درباریوں نے لکھا۔ ان نام نہاد تاریخ دانوں کا کام ہی یہی تھا کہ وہ اپنے آقاؤں کے قصیدے لکھیں اور ان کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر بیان کریں۔ پاکستان میں تاریخی تحقیق ناپید ہے اور جو کچھ تاریخ کے نام پر پڑھایا جاتا ہے وہ باہر سے آئی ہوئی مسلمان اشرافیہ کی لکھی ہوئی نیم فرضی داستانیں ہیں۔ پاکستان میں جب تک درست سیاق و سباق میں عوام کی تاریخ نہیں پڑھائی جائے گی تب تک انتہا پسند بیانیہ کو جڑ سے اکھاڑ کر نہیں پھینکا جائے گا۔

.
تازہ ترین