• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منگل کے روز حکومت کی طرف سے فروغ برآمدات کیلئے 80ارب روپے کے جس پیکیج کا اعلان ٹیکسٹائل مشینری اور کاٹن کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کرنے اور کئی اشیاء پر ڈیوٹی ڈرابیک کم ہونے کی نوید کے ساتھ کیا گیا اس کی ٹائمنگ کے حوالے سے بعض حلقوں کے تحفظات کو اگرچہ سو فیصد بے محل قرار دینا ممکن نہ ہو مگر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس نوع کے ترغیبی پیکیج کی ضرورت خاصے عرصے سے محسوس کی جارہی تھی۔ برآمد کنندگان کا غالب ردعمل حوصلہ افزا ہے اور اس پیکیج پر درست طور پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں ملکی برآمدات میں اضافے کی توقعات خاصا وزن رکھتی ہیں۔ مذکورہ پیکیج کا اعلان وزیراعظم میاں نواز شریف نے اسلام آباد میں ملک کے ممتاز تاجروں اور برآمد کنندگان کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جہاں تاجر برادری کو ان کے تقریباً تمام مطالبات کی منظوری کے حوالے سے یہ ذمہ داری یاد دلائی کہ انہیں ملکی ایکسپورٹ میں جی ڈی پی کا کم از کم دس فیصد اضافہ یقینی بنانا ہوگا وہاں وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت کے صدر زبیر طفیل اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عامر فیاض شیخ نے بھی یقین دہانی کرائی کہ تاجر برادری برآمدات بڑھانے کے حوالے سے حکومت اور قوم کی توقعات پر پوری اترے گی۔ موجودہ حکومت کی جانب سے قبل ازیں زرعی شعبے کیلئے ترغیبی پیکیج بھی دیا جاچکا ہے جس پر عملدرآمد کے ذریعے ملک کی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا، زراعت پر انحصار کرنے والی صنعتوں کو ترقی دینا، دیہات میں رہنے والوں کے حالات زندگی بہتر بنانا اور کھیت سے منڈی تک مال کی بروقت ترسیل یقینی بناکر کاشتکاروں کی معاشی حالت بہتر بنانا ممکن ہوگا۔ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس سے غفلت یا صرف نظر قومی خودکشی کے مترادف ہوگی کیونکہ زراعت سے ہمیں جہاں دالیں، اجناس، جانوروں کے چارے،لائیو اسٹاک سمیت وہ تمام چیزیں ملتی ہیں جو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کا ذریعہ ہیں۔وہاں ملکی استعمال اور بیرون ملک برآمد ہونے والی اشیاء کی مینوفیکچرنگ کیلئے بھی خام مال ملتا ہے۔ وزیر تجارت خرم دستگیر نے اپنی پریس کانفرنس میں تجارتی و صنعتی سرگرمیوں کے فروغ اور سماجی و معاشی ترقی کیلئے سڑکوں اور مواصلاتی نیٹ ورک کی جو ضرورت اجاگر کی اور جس پر موجودہ حکومت پوری تندہی سے کام کررہی ہے وہ بھی درحقیقت برآمدات سمیت معیشت کا پہیہ رواں رکھنے کی ناگزیر ضرورت ہے۔ درحقیقت معاشرے اور سماج کی ترقی جن چیزوں سے جڑی ہوئی ہے ان میں تجارتی، صنعتی، معدنیاتی ترقی اور ماحولیاتی حسن سمیت وہ سب کچھ اجاتا ہے جو انسان کے لئے قدرت کا عطیہ ہے اور جس کو انصاف و اعتدال سے بروئے کار لاکر کرۂ ارض پر امن و محبت کے پھول کھلانا عطیات قدرت کی شکرگزاری کی ایک صورت ہے۔ اسلئے مذکورہ تمام پہلوئوں اورشعبوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے اسی لئےاپنے خطاب میں ڈیموں کی تعمیر کا بھی ذکر کیا جن کے ذریعے پانی ذخیرہ کرکے آب نوشی، آبپاشی اور صنعت کی ضروریات پوری کی جاسکیں گی اور سستی بجلی فراہم کرنا ممکن ہوگی۔ برقی پیداوار بڑھانے کے اقدامات پر روشنی ڈالی جو لوڈشیڈنگ ختم کرنے صنعتی و زرعی پیداوار بڑھانے اور دور حاضر کی سماجی زندگی کوحسن بخشنے کا ذریعہ ہے۔ مواصلاتی منصوبوں اور سی پیک سمیت وسیع موضوعات کا حاطہ کیا جنہیں فروغ تجارت سمیت سماجی و معاشی حوالے سے گیم چینجر کہا جارہا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ سی پیک کے ذریعے درآمد و برآمد کا پہیہ رواں ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ان سب باتوں کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور سرکاری و نجی اداروں کی کارکردگی کے اس تفاوت کو دور کیا جائے جو بدھ کے روز ہی بجلی گھروں کی جانب سے برقی پیداوار میں 5500میگاواٹ کمی کی خبر سے ظاہر ہے بھارت کے ساتھ دریا ئی پانی کے معاملات درست کرنے کے علاوہ سورج، ہوا اور پانی کی لہروں سے بجلی پیدا کرنےکے طریقوں پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے اہم بات یہ ہے کہ حکومتی منصوبوں پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ پوری سختی سے کی جائے۔

.
تازہ ترین