• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارا دائرہ اختیار ہے، کیس براہ راست سن سکتے، سن چکے بھی ہیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ، جنگ نیوز)پاناما پیپرز لیکس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے پہلے استثنیٰ چھوڑا اب کیوں مانگ رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی تقریر کو محض ایک بیان کے طور پر نہیں لیا جاسکتا کیونکہ اُن کی تقریر ہی عدالتی کارروائی کی بنیاد ہے،ہمارا دائرہ اختیار ہے کیس کو براہ راست سن سکتے ہیں ،سن چکے بھی ہیں۔ وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر ہم استثنیٰ نہ بھی مانگیں تو پھر بھی عدالت کو قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 66 پارلیمنٹ میں کی گئی کارروائی کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اُنھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں محض ججز کے روئیے کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔مخدوم علی کا کہنا تھا کہ محض پارلیمنٹ میں کی گئی تقاریر پر کسی شخص کو نااہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔جسٹس اعجاز الا احسن نے وزیر اعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا وہ نواز شریف کی تقریر کی تردید کر رہے ہیں؟جس پر مخدوم علی کا کہنا تھا کہ وہ اسکی تردید تو نہیں کر رہے البتہ عدالت کو اس معاملے میں آئین کے آرٹیکل 66 کو سامنے رکھنا ہوگا۔اُنھوں نے کہا کہ استثنیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور وہی اس کو ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں بولے گئے جھوٹ پر آئین میں نااہلی سے متعلق واضح کیے گئے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا جس پر وزیر اعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ میں ایسے فیصلے موجود ہیں جن پر اس بارے میں قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ کیا پارلیمنٹ میں غلط بیانی کرنے پر بھی استحقاق کا معاملہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔مخدوم علی کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اُن کے موکل نے کوئی غلط بیانی نہیں کی اور اگر کی بھی ہے تو پھر بھی وزیر اعظم کو آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے وزیر اعظم کی تقاریر کو بنیاد بناتے ہوئے اُنکی نااہلی کا معاملہ نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ تقاریر ضمنی مواد اور دستاویزات ہیں اور عدالت نے فیصلہ شواہد کی بنا پر کرنا ہے، کسی بھی کیس میں آرٹیکل 62(1)fاور 63کے اطلاق کا تعین کیس کے حقائق کے مطابق کیا جاتا ہے ، کیس میں براہ راست تقریر کی بنیاد پر کارروائی کرنے کا نہیں کہا گیا ہے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان ،جسٹس گلزار احمد ،جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے پیر کو مقدمہ کی سماعت کی تووزیر اعظم نواز شریف کے وکیل، مخدوم علی خان پیش ہوئے اور آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے اطلاق کے طریقہ کارکے حوالےسے اپنے دلا ئل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمہ میں سزا سنائی گئی تھی، نا اہلیت سے متعلق تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہوا تھا،محض دہری شہریت کے فیصلے کی بنیاد پر کسی رکن کو اسکی تقریرکی بناء پر نااہل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں؟ کہ دہری شہریت کے مقدمات میںسپریم کورٹ نے براہ راست فیصلہ جاری کیا تھا، اگرکوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 62،63 کی تشریح کیس کی بنیاد پر ہوئی تھی، ممکن ہے اس حوالے سے آئندہ مزید فیصلے بھی آئیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ نا اہلیت سے متعلق تمام مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہوا تھا، دہری شہریت کے حوالے سے آرٹیکل63(1)c واضح ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ وہری شہریت کیس کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے کہ عدالت اس حوالے سے دائرہ اختیاررکھتی ہے،تاہم عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ریکارڈ سے کیس ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے ہر کیس کا حقائق کے مطابق جائزہ لیا تھا، دہری شہریت کے حامل افراد کو صفائی کا موقع بھی دیا گیا تھا، انہوںنے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی ناہلی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ26 اپریل 2012کو سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو سزا سنائی تھی، اس سے پہلے یکم اپریل کو عدالت نے وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کی ہدایت کی تھی ، 4مئی کو اسپیکر نے رولنگ دی تو اس کے بعد معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں آگیا تھا ،19جون کو عدالت نے یوسف رضا گیلانی کووزیر اعظم کے عہدےسے ہٹانے کا حکم جاری کیا تھا۔ دوران سماعت جسٹس آصف کھوسہ نے فاضل وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو مزید کتنا وقت لگے گا؟ تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے موکل اور دیگر مسئول علیہان کی تقاریر میں تضاد، مریم نواز کے زیر کفالت ہونے اور پھر عدالتی دائرہ اختیار کے حوالے سے بات کرونگا، لیکن میری کوشش ہوگی کہ آج آئین کے آرٹیکل 62 ،63 کے حوالے سے اپنے دلائل مکمل کرلوں۔
تازہ ترین