• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جب ہم نے یہ کہا کہ اس کانفرنس نے ہماری نیندیں نہیں اڑائیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ اکادمی ادبیات کی چوتھی کانفرنس میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ نیندوں کا مسئلہ تو ہمارا اپنا ہے، ویسے اس کانفرنس میں بہت کچھ ہوا۔ ایک تو اکادمی کے چیئرمین ڈاکٹر قاسم بگھیو نے پورا پاکستان اکٹھا کیا ہوا تھا۔ پاکستان کی ہر زبان اور ہر علاقے کا ادیب، شاعر اور کالم نگار وہاں موجود تھا۔ آپ کسی کا بھی نام لیں، وہ وہاں نظر آ رہا تھا۔ دوسرے اس کانفرنس میں ایک نئی بات جو ہوئی وہ یہ تھی کہ پاکستان اور باہر کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ نے مختلف موضوعات پر جو تحقیقی مقالے لکھے اور مختلف اجلاسوں میں پڑھے وہ مقالے کتابی شکل میں شائع کر دیئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر بگھیو کا تعلق چونکہ تعلیم کے شعبے سے رہا ہے، اور وہ ایک یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر بھی رہے ہیں، اس لئے وہ اپنا یونیورسٹیوں کا تجربہ یہاں بھی کام میں لائے۔ انہوں نے پاکستان اور باہر کی یونیورسٹیوں کو لکھا کہ جو اساتذہ یا طلبہ کانفرنس میں اپنا مقالہ پیش کرنا چاہیں وہ ایک خاص رقم دے کر اپنے آپ کو رجسٹر کرا لیں۔ اس کام میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی ان کی مدد کی۔ اس طرح جہاں ریسرچ پیپر تیار کرنے والوں کو اپنی ملازمت میں ترقی کرنے کا موقع ملا، وہاں اکادمی کو بھی فائدہ ہو گیا۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور پھر اکادمی کی مطبوعات میں ایک کتاب کا اضافہ بھی ہو گیا۔ یوں بھی ڈاکٹر قاسم کی آمد کے بعد اکادمی کی مطبوعات کا معیار بہت اچھا ہو گیا ہے۔ اب دیدہ زیب کتابیں چھپ رہی ہیں۔ سہ ماہی رسالہ ’’ادبیات‘‘ بھی دلکش ہو گیا ہے۔ ان مطبوعات پر خاصی رقم خرچ کی جا رہی ہے۔ لیکن۔۔۔ اور یہ لیکن شکایت نہیں بلکہ آئندہ کیلئے ایک مشورہ ہے۔ لیکن، یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کانفرنس کا جو پروگرام چھاپا گیا اس میں کنجوسی کیوں کی گئی؟ کاغذ تو اچھا لگایا گیا تھا لیکن تحریر اتنی باریک تھی کہ کم سے کم ہم جیسے لوگوں کیلئے اس کا پڑھنا بہت ہی مشکل تھا۔ ہر ایک سے پوچھنا پڑتا تھا کہ کس ہال میں کیا پروگرام ہو رہا ہے۔ بہت سے پروگراموں میں ہم اسی لئے شرکت نہ کر سکے۔ ہم کہاں تک پوچھتے پھرتے کہ اب کدھر جائیں۔ جو کوئی بھی پکڑ کر اپنے ساتھ لے گیا ہم اسی کے ساتھ ہو لئے۔ جی ہاں، پاکستان کے علاوہ دوسرے کئی ملکوں کے ادیب بھی اس کانفرنس میں شرکت کر رہے تھے۔ باہر کے اور ادیبوں سے تو ہمیں ملنے کا موقع نہیں ملا، البتہ لبنان کی خاتون ادیب ’’رولا‘‘ (پورا نام ہمیں یاد نہیں رہا) سے باتیں کرنے کا موقع مل گیا۔ اور وہ بھی پروفیسر قیصرہ علوی کی وجہ سے۔ قیصرہ علوی نے ایک عربی شاعرہ ہدی النعمانی کی طویل نظم کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ کانفرنس میں انہوں نے ایک غیر ملکی خاتون مندوب کو ادھر ادھر اکیلا پھرتے دیکھا۔ لگتا تھا جیسے وہ خاتون ہجوم میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہی ہیں۔ قیصرہ علوی ان کی مدد کو پہنچیں اور ان کا ہاتھ تھاما۔ ’’رولا ‘‘ بیروت یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ ان کے ساتھ جدید عربی ادب کے ساتھ عرب دنیا کی موجودہ صورت حال پر بھی باتیں ہوئیں۔ عرب دنیا میں، سعودی عرب اور عرب امارات کو چھوڑ کر لبنان اور اردن ہی ایسے ملک ہیں جو ’’عرب بہار‘‘ سے محفوظ رہے ہیں۔ رولا اس پر بہت خوش تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ لبنان کی ثقافت اور ادب پر اب بھی فرانسیسی اثر ہو گا لیکن رولا نے بتایا کہ اب امریکہ وہاں چھا گیا ہے اس لئے اب انگریزی زبان وہاں اپنا اثر قائم کر رہی ہے۔ ادھر عرب دنیا میں جب ’’مغرب‘‘ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد مراکش اور تیونس ہوتے ہیں۔ لیکن رولا نے یہ کہہ کر ہمیں حیران کر دیا کہ مراکش والے اپنے آپ کو عرب نہیں کہتے۔ اور ان کی عربی بھی دوسرے عرب ملکوں سے کچھ مختلف ہے۔ وہ بربر ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ رولا نے کانفرنس کے ایک اجلاس میں کلیدی خطبہ بھی دیا۔ اور ہمیں حیرت ہوئی کہ انہوں نے خلیل جبران اور امین مالوف کے علاوہ صرف ایک اور لبنانی ادیب کا ذکر کیا، اور پھر پاکستانی ادیبوں کا ذکر کرتی رہیں۔ امین مالوف تو خیر ٹھیک ہے، مگر وہ نہیں جانتی تھیں کہ ہمارے ہاں خلیل جبران بہت پٹ چکا ہے۔ اور محمد کاظم جیسے سنجیدہ نقاد اسے جذباتیت سے بھرپور ادیب کہہ کر مسترد کر چکے ہیں۔ مگر وہ بھی کیا کرتیں، ہمارے ہاں ہی کسی نے انہیں سمجھایا ہو گا کہ پاکستان میں عمیرہ احمد کی طرح خلیل جبران جیسے جذباتیت پسند ادیبوں کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ خیر، اس موقع پر ہم پاکستان سے باہر کی اسی ادیب سے مل سکے۔ باقی باہر کے ادیبوں سے ہماری ملاقات نہیں ہو سکی۔
ان کانفرنسوں میں بلوچی زبان کے ناول نگار منیر بادینی سے مل کر ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بادینی صاحب نے بلوچی زبان میں ایک سو سے زیادہ ناول لکھے ہیں۔ اور ابھی ان کا تخلیقی وفور جاری ہے۔ فلسفہ ان کا مضمون ہے۔ خیال ہے کہ ناول بھی ان کے فلسفیانہ ہی ہوں گے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ان کے ناول پڑھ نہیں سکتے۔اس لئے جب بھی وہ ملتے ہیں ہم ان سے شکایت کرتے ہیں کہ ان ناولوں کا اردو میں ترجمہ کیوں نہیں کراتے۔ وہ وعدہ کرتے ہیں۔ مگر وہ وعدہ ابھی تک وعدہ ہی رہا ہے۔ معلوم نہیں اکادمی ادبیات اس سلسلے میں ان کی کچھ مدد کر سکتی ہے یا نہیں۔ بادینی صاحب ایک بڑے سرکاری افسر بھی رہے ہیں۔ اس لئے ہم ان سے بلوچستان کی سیاسی صورت حال بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جو کچھ بتاتے ہیں وہ اس صوبے کی محرومیوں کی طویل داستان ہی ہے۔ وہاں صرف لاپتہ افراد کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس صوبے کے وسائل پر اس علاقے کے حق کا مسئلہ بھی ہے۔ ہم پنجاب میں بیٹھ کر ان مسائل کی سنگینی کا احساس نہیں کر سکتے اس لئے بھی بادینی صا حب کے ناولوں کا اردو میں ترجمہ ہونا چاہئے۔۔۔ اور اب آخر میں ایک افسوس ناک خبر۔ اردو کے رجحان ساز افسانہ نگار بلراج مین را کا انتقال ہو گیا۔ دہلی سے یہ خبر شمیم حنفی صاحب نے دی ہے۔ مین را ایک عرصے سے کچھ نہیں لکھ رہے تھے مگر وہ اردو میں علامتی اور تجریدی افسانے کے سرخیل تھے۔ عبداللہ حسین اور انتظار حسین کے بعد یہ اردو ادب کا بہت بڑا نقصان ہے۔


.
تازہ ترین