• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے سارا جہاں ڈسکس کیا، اپنی ذات کے مندر میں جھانکنے کی غلطی البتہ کبھی نہیں کی، قریب تک نہیں پھٹکے، لوگوں کو چھاننے پھٹکنے میں کسی رو رعایت کا بھی سوچا نہیں، واقعات کی ایک تاریخ ہے، حادثات کا ایک طومار اور پاکستان پر ملبوں کا ایک انبار، اس انبار کا مجموعہ خون، بددیانتی، مذہبی جنونیت، قدرتی قوانین کی خلاف ورزیوں سے جمع کیا گیا، ہم اس پر اجتماعی لحاظ سے نادم نہیں ہیں اور تشویش کے فنامنے کو ہمارے معمولات میں دخل دینے کی جرأت ہو ہی نہیں سکتی!
کہیں کہا گیا تھا ’’چاروں طرف زندگی کی کہانیوں کے باب کھلتے اور ختم ہو جاتے ہیں اور کردار صفحات میں سے نکل کر قبروں میں جا لیٹتے ہیں، چتائوں میں پھونک دیئے جاتے ہیں، نیا صفحہ پلٹ کر قاری آگے بڑھتا ہے‘‘ لیکن ہمیں مرنا نہیں ہے، یہ ہمارا عمل ہے، زبان ہماری ساری دنیا سے زیادہ موت کا ذکر کرتی ہے، مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) کا تذکرہ ہوا تھا جس میں ایک بات کہنا رہ گئی تھی، یہ کہ ’’قدیم بنگال کی نئی بیٹیاں اپنی اپنی کتابوں پر جھکی ہوئی علم میں منہمک تھیں اور کون کہہ سکتا ہے باہر بیکراں فضا پرانی جنگوں کی جھنکار سے گونج رہی ہیں، ان جنگوں میں لڑنے والے جو زبانیں بولتے تھے وہ بھلا دی گئیں وہ قومیں اور نسلیں ختم ہو چکیں، جن وجوہات اور جن مقاصد کے لئے وہ لڑائیاں لڑی گئیں، وہ فراموش کر دیئے گئے، پرانے فیصلوں کو نظرثانی کرنے کی مہلت دنیا میں نہیں لیکن بیکراں زندگی میں ہر آواز، ہر کرب اور وقت کا ہر عکس موجود ہے، اور زندہ ہے اور باقی ہے!‘‘ اسی مشرقی پاکستان میں کہیں 16؍ دسمبر کی تاریخ کا عکس موجود رہتا ہے، یہ 16؍ دسمبر ہی اصل کرب اور مصیبت کی وہ نسل ہے جس نے بہت سے لوگوں پر وقت سے پہلے بڑھاپا لا ڈالا، ان کی کمریں تو نہیں جھکیں، امیدوں اور حوصلوں کے مینارے ضرور ڈھے گئے، وہ مٹی کے ساتھ مٹی ہو گئے۔ 16؍ دسمبر کی تاریخ پھر بھی ذہن پر دستک دیتی رہتی ہے، جیسے کہہ رہی ہو، کیا زبان کا جھگڑا تھا؟ دونوں کے درمیان ہزار میل کی دوری کسی ذہنی فاصلے کی پیدائش کا سبب بن گیا تھا؟ سازشی صرف باہر کے تھے یا تم دونوں کے اندر بھی ہیں وہ پھر رہے تھے؟ حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کا رونا روتے ہو اس میں تم دونوں کو اندر کے سازشیوں کا پتہ نہیں چلا تھا؟ تاریخ ایسی ہو جب کسی کا وطن تڑاخ سے ٹوٹ گیا یا توڑ دیا گیا پھر وہ بندے کے اعصاب اور بندے کے قلب کی دنیا زیر و زبر کیوں نہ کرے، 16؍ دسمبر وہی تاریخ ہے جب پاکستان تڑاخ سے دو حصوں میں ٹوٹ کر، اِدھر اور اُدھر ہو گیا، حسینہ واجد اب بھی باز نہیں آ رہی، وہ متنازع ظلم اور متنازعہ مظلومیت کا ہمالیہ ایسے سوال کے ہوتے بھی پھانسی گھاٹوں کو آباد رکھنے کو بضد ہے، کیا شیخ مجیب کے معاملے پر انتقام کا کوئی جرثومہ اسے مزاج کی حواس باختگی میں مبتلا کر چکا ہے۔ جس کے ہاتھوں وہ ماضی کے خون کی بالٹیاں اٹھائے رکھنا چاہتی ہے۔ 16؍ دسمبر، دراصل تیسری نسل کو بار بار بتانا ہے پاکستان دو لخت ہوا تھا، تازہ ترین مدت اس تاریخ کو بیتے صرف ایک یا چند دن ہی کی ہوئی ہے، پچھلے مہینے کا نام ہی تو دسمبر تھا،
ابھی ابھی وجاہت مسعود کی بات بارش کے نوکیلے چھینٹے کی طرح میرے چہرے پر گرکے وہ دماغ میں کھب گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’یہ درست ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف پہلا معرکہ ہماری قوم، ریاست اور افواج نے جیتا ہے لیکن یہ محض بندوق اور گولی کی لڑائی نہیں تھی، بارود کی آگ اور دھماکوں کی گرج چمک میں فکری مباحث نہیں ہوا کرتے، مسلح تصادم میں مکالمہ معطل ہو جاتا ہے، بیانئے کی جنگ مکالمے میں جیتی جاتی ہے‘‘ معتبری اور راست روی کے آمیزے میں ڈھلے ہوئے ایک بت ہی دوسرے کالم نگار برادر نے چوہدری نثار کو ’’لال ٹوپی والے‘‘ سے مشورہ کی راہ دکھلائی، وہ دراصل وفاقی وزیر داخلہ سے ہمدردی میں انتہائی حد تک چلے گئے، وفاقی وزیر داخلہ، چکری کے خاندانی راجپوت، چوہدری نثار ان دنوں ذرا پریشان ہیں، وہ جو راہ چلتے ایک پروفیسر Missingبن گیا یا بنا دیا گیا، اس کے حوالے سے آخری حد تک جائوں گا‘‘ کے کلائمکس کو ریکارڈ پر لائے بغیر نہ رہ سکے شاید انہیں یہ اظہاریہ پاکستانیوں کو اس مسئلے پر ڈھارس دینے کی مطلوبہ مقدار پورا کرتا محسوس ہوا ہو، اب دونوں کو ان کے فکری بطن سے سر ابھارنے، بتیسی دکھاتے، آنکھیں جھپکاتے، شرارے بکھیرتے، چیخنے چلانے، غضب ناک اشارے کرتے اور چنگھاڑتی باڈی لینگویج میں آتشی ابال ابھارتے سوالوں کا جواب کون دے؟
دونوں برادران بالترتیب پہلے دو باتوں کا جواب دیں (1) وجاہت بتائے یہاں دہشت گرد اور مداخلت کاروں کی بنیادیں کس نے رکھی تھیں، آج قریب قریب 30برس بعد بھی وہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ (2) ان مقتدر کالم نگار سے پوچھنا ہے، کیا واقعی وفاقی وزیر داخلہ کو مسنگپرسنز کے ناقابل گرفت مسئلے کے ایجاد کنندگان اور ارتکاب کنندگان کا پتہ نہیں؟ دونوں قلمکار کے فکر و نظر کا نغمہ ہیں، دونوں سے عرض کرنا ہے، جیسے پاکستان کی ہسٹری میں ایک تاریخ 16؍ دسمبر ہے، جس کی یاد گریہ میں مبتلا رکھتی ہے اسی طرح قدیم بنگال سے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) وہ لڑکیاں ہیں جو علم کے حصول میں مصروف تھیں مگر انہیں نہیں پتہ تھا مستقبل کے افق پر جنرل اروڑا اور جنرل نیازی کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں؟
پاکستان ہمارا ہے لیکن ریاست عام شہری پر پلی بڑی ہے، یہ شروعات 15؍ اگست 1947سے ہو گئی تھیں، ریاستی اہلکاروں کی اکثریت نے آج تک مملکت کو یرغمال بنا کے رکھا، دولت اور جائیدادوں کے گندے دریائوں کے تیراک بن گئے، آج تک باز نہیں آئے، مگر ریاست کی خاکی اور غیر خاکی فورسز خصوصاً پنجاب پولیس نے جس طرح عام شہری کے جذبہ حب الوطنی کی توہین اور بے عزتی کی، اس کا تسلسل 2017کی صبح، شام اور رات کو اسی طرح موجود ہے، ابھی ابھی قلمکار کو ایک شہری نے بتایا ’’وہ پنجاب پولیس کے چار اہلکار تھے، انہوں نے مجھے بلادریغ ننگی گالیاں دیں، مجھے رات کو بخار ہو گیا۔ آہ! کالم کی گنجائش تمام ہوئی، چلیں ’’سچ نہ سہی، جھوٹ تو نہ بولا‘‘ کے عنوان سے بات جاری رکھیں گے!



.
تازہ ترین