• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارتی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ الیکشن کے دوران مذہب، ذات برادری کا استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ اعلان سپریم کورٹ نے اس وقت کیا ہے جب انڈیا کی سات ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں۔ مذہب کو ہمارے ملک میں رجعت پسند جب چاہیں اور جیسا چاہیں استعمال کرلیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے پچھلے الیکشن میں ایک اتحاد کا انتخابی نشان کتاب تھا۔ امیدوار لوگوں کو کتاب دکھا کر کہہ رہے تھے کہ انہیں ووٹ دینا گویا قرآن شریف کو ووٹ دینا ہے۔ ہمارے دیہات میں بھی 80فیصد لوگ ان پڑھ ہیں، جب وہ حج کرنے جاتے ہیں تو ان کو وقوف کے وقت پڑھی جانے والی آیتوں کو یاد کراتے ہیں۔ دیہات میں جاکر جب بھی ان سے پوچھو آپ کو کلمہ طیبہ آتا ہے، عورتیں اور مرد یکساں جواب دیتے ہیں مولوی صاحب پڑھتے ہیں، ہم سن لیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے ہاتھ میں ہمیشہ تسبیح ہوتی ہے، وہ معصوم اور سادہ لوح تسبیح کے دانے گھماتے رہتے ہیں اور سکون قلب حاصل کرتے ہیں۔ مجھے اپنا بچپن یاد ہے جو خواتین قرآن شریف پڑھنا نہیں جانتی تھیں ان کو کہہ دیا جاتا تھا کہ بس ہر سپارے کی سطر پر انگلی پھیرتی جائو تمہیں اس کا ثواب ملے گا۔ اسی طرح کھجور کی گٹھلیوں پہ اللہ اللہ کہہ کر پڑھتی جائو مرنے والی کی روح کو ثواب ملے گا۔ خیر ان باتوں پر معترض اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ روحانی طور پر جس طرح بھی اپنے اللہ کا قرب محسوس کرسکیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔
ہم اپنے وطن میں بھی دیکھیں تو عمومی جلسوں اور گفتگو میں منتخب نمائندے ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ سن کر حجاب آتا ہے۔ انتخابات کے دوران ہماری منتخب ہونے والی خواتین جن میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی خواتین شامل ہیں، عمومی طور پر الیکشن کے جلسوں میں اسٹیج پر نہیں آتیں۔ ان کی طرف سے ان کے باپ بھائی تقاریر کرتے ہیں اور وہ برادری کی نمائندگی کرنے کے لئے منتخب کرلی جاتی ہیں۔ دوسری طرف جاگیرداروں کو اپنے علاقے کے پٹواروں اور تحصیل داروں کی اندرخانی مدد اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ حمایت کے علاوہ ایسی دھمکیاں بھی شامل ہوتی ہیں جس میں زمینوں پر قبضہ کرنے، فصل جلادینے اور عورتوں کو اغوا کرنے کی ناگفتہ بہ جیسی باتیں شامل ہوتی ہیں، جو لوگ بہت مالدار ہوتے ہیں وہ اپنے ووٹرز کے گھر دو مہینے کا سودا، ٹی وی اور ان کے علاقے میں سڑک بھی اپنی جیب سے بنوادیتے ہیں۔
رہا انڈیا کا مسئلہ بی جے پی تو برسر اقتدار ہی ہندو توا کے نعرے پر آئی ہے۔ وہ تو پورے ملک کو یک مذہبی سلطنت بنادینا چاہتے ہیں۔ جبکہ 27% آبادی مسلمانوں کی اور 32% فیصد آبادی شودروں کی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ یہ اب تک تو مذہب اور ذات پات کا سہارا لے کر الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے آرڈرکے بعد حکومتی کارندے جو چاہیں گے کریں گے۔ یہ مظلوم طبقات بس یہ کرسکیںگے کہ ملازمتوں اور بنیادی حقوق کے حوالےسے احوال سنائیں گے اور نمائندگی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ہمارے ہاں بھی اس طرح کے قوانین پاس ہونے چاہئیں۔ فی الوقت چیف جسٹس صاحب کا 10سالہ بچی پر سرکاری ملازم اور مجسٹریٹ کی بیوی کے ظالمانہ تشدد کے بارے میں علاقےکے مکینوں کا احتجاج انہیں تھانے تک شکایت کرنے کے لئے آیا پھر جا کر دو سال سے ظلم کی چکی میں پستی ہوئی اس لڑکی کا احوال سامنے آیا۔ توقع ہے کہ چیف جسٹس صاحب انصاف کے ترازو میں تولنے کے لئے مقامی حکومتوں کو تنبیہ کرتےرہیں گے۔ اب رشوت دینے والوںکو اتنا حوصلہ تو ہوا ہے کہ سرکار اور متعلقہ تھانوں میں اطلاع بھی کردیتے ہیں، اب امتحان ہے ہمارے تھانوں کا کہ وہاں تو رپورٹ لکھوانے کے لئے بھی پیسے مقرر ہیں، میں نے خود لڑکیوں کو تھانے سے نکلوانے کے لئے اور رات کو وہاں نہ ٹھہرنے کے لئے اتنے بڑے سیاست دانوں اور افسروں کی سفارش کروائی، پھر بھی کچھ نہ کچھ رقم دیکر ان لڑکیوں کو نکلوایا ہے۔
ہمارے قبائلی علاقوں میں جرگہ سسٹم نہ صرف رائج ہے بلکہ ہماری اسمبلی نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے، اکثر و بیشتر ان جرگوں میں سارا عذاب عورتوں پر نازل ہوتا ہے، غریب کسانوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور سرکار کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ اسی طرح کچھ علاقوں میں شدت پسند مذہبی عدالتیں لگائی جارہی ہیں۔ ان کے فیصلوں کو کوئی بھی چیلنج نہیں کرسکتا۔ اب چاہے محلہ کمیٹیوں کے ذریعے امن اور صلح کا پیغام دیا جائے۔ عورتوں اور بچیوں پر تشدد بندکروایا جائے۔ علاقے میں کنڈا ڈال کر بجلی لینے والوں کا احتساب کیا جائے۔ تو علاقہ کمیٹی کے نام سے ہو۔ ہم معترض نہیں ہونگے۔ ایوب خان کے زمانے میں مسجد اسکول سسٹم متعارف کروایا گیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ امام مسجد، بچوں کو قرآن اور اردو پڑھایا کرینگے۔ اب کیا بتائوں کہ کس نے تعاون نہیں کیا۔ بس وہ سسٹم چلا نہیں۔ اس طرح بچوں کو اسکولوں میں کھانا دینے کی ترکیب بھی کارگر نہیں ہوئی۔ پنجاب میں بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو پڑھانے اور والدین کو ایک ہزار روپے دینے کا لالچ بھی کامیابی کی منزلیں نہیں طے کررہا۔ غریب والدین کا جواب بھی ٹھیک ہے۔ یوں کام کرکے چاہے ڈھابے پہ ہو کہ بھٹے پہ کہ موٹر ورکشاپ پہ کہ گھروں میں بیگم صاحبہ کے بچوں کو گود میں لینے اور بس کھانے کے عوض نوکری کرنے کا سسٹم یونہی چلتا رہیگا۔ مگر نہیں کہ اب علاقے کے لوگ بھی جاگ گئے ہیں۔

.
تازہ ترین