• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پیارے پاکستان میں آخری آدم شماری یا مردم شماری مجھے یاد نہیں کہ کب ہوئی تھی۔ لیکن جب بھی ہوئی ہے اسے بہت ہی دھماکےدار صورتحال بنا کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ دنیا کے مہذب ممالک میں آدم شماری کے اعداد وشمار کو وسائل اور سہولتوں کی مساویانہ نہیں تو منصفانہ تقسیم اور اقتصادی وسماجی انصاف، اور مستقبل کی ترقی اور دیگر منصوبہ بندی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پروفاق اور صوبوں کے درمیاں وسائل و مالیات کی تقسیم نیز یہ بھی کہ آدم شماری کے ہی تازہ یا پرانے اعداد وشمار کی بنیاد پر کسی بھی تحقیق میں بڑی مدد ملتی ہے اور اسے مستند منا جات مانا جاتا ہے۔ یہاں امریکہ میں باقاعدہ سینسس بیورو ہے جسکے تحت ہر تیسرے سال گھر شماری اور ہردسویں سال آدم شماری ہوتی رہتی ہے۔ یہ سترہ سو نوے سے متواتر اور باقاعدگی سے ہو رہی ہے، آدم شماری میں آدم کی شناخت کیلئے صرف تین کالم ہیں: سفید، سیاہ، ایشیائی اور دیگر- یہاں تک کہ بغیر دستاویزات رکھنے والے گیارہ ملین سے زائد تارکین وطن اور انکے کنبوں کے اعداد و شمار اکثر بیورو برائے آدم شماری کے پاس موجود ہیں جنکی بنیاد پر ہی بغیر کاغذات والے تارکین وطن اور انکے بچوں میں سہولتوں اور وسائل کی آئین کے مطابق تقسیم کی جاتی ہے۔انٹرنیٹ کےدور میں تو آپ خود کو بیورو آف آدم شماری کے پاس آن لائن بھی رجسٹر کرواسکتے ہیں۔ اس کیلئے نہ فوج اور نہ ہی کوئی ادارے یا کرفیو لگانے کی ضرورت ہے۔ اور ہونی بھی کیوں چاہئے۔کم از کم امریکہ میں تارک وطن ہوکر میرا اس نعرے پر اب زیادہ اعتبار نہیں رہا کہ ‘‘سندھ میں دھاریاں نامنظور‘‘۔ (سندھ میں غیر نامنظور)۔ امریکہ تو ویسے بھی تارکین وطن کی قوم ہے یہاں تک کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دادا بھی جرمنی سے ہجرت کر کے آیا تھا۔ یہاں امریکہ کے اصلی اور قدیمی باشندے صرف نیٹو امریکن یا انڈین امریکن ہیں جنہیں ہم "سیاسی طور پر غلط اور قابل اعتراض اصطلاح ’’ریڈ انڈین‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اچھے خاصے پاکستانی دانشور اور سیاستدان آجتک امریکہ کے ان اصلی اور قدیم باشندوں کیلئے ایسی اصطلاح استعمال کرتے آئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ میں اقلیتوں کے حقوق خطرے میں رہے ہیں تو اس کیلئے ایک بہت بڑی تاریخی جدوجہد بھی رہی ہے۔ یقیناً پاکستان میں بھی ہے۔
لیکن ہم نے تاریخی بدقسمتیوں سے دیکھا ہے پاکستان جیسے ملک میں جب بھی آدم شماری آئی ہے تو بس اسے ’’آدم بو آدم بو‘‘ کرتے بتایا گیا ہے۔یہ بھی یقین ہے کہ جہاں مسائل زیادہ تر حل نہیں ہوئے ہوتے یا حقوق دبائے گئےہوتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کی مانگ کرنا بھی غداری اور کفر بتایاجاتا ہو تو پھر اسطرح کی صورتحال ہوتی ہے۔ لیکن صورتحال مضحکہ خیز بھی ہے! صوبہ سندھ کی ہی مثال لے لیجئے جہاں اسکی دو بڑی اور مستقل آبادیاں (میں تو انہیں ایک ہی سمجھتا ہوں ایک اردو بولنے والے سندھی اور دوسرے سندھی بولنے والے قدیم اور اصلی باشندے سندھ کے) تو ان میں سے ہر کوئی کہتا ہے کہ ہمیں نیٹو امریکیوں کی طرح اقلیت میں بدلا جا رہا ہے۔ بلکہ بدل دیا گیا ہے: جب آپ واقعی نیٹو امریکیوں کی طرح اقلیت میں بدل گئے ہو تو پھر آپ میں سے ہر کوئی اس پر کیوں مصر ہے کہ آپ ہی سندھ میں پہلی بڑی اکثریت ہیں!
جب پاکستان مشرقی اور مغربی پاکستان جیسے دو صوبوں کی شکل میں متحد تھا تو سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی بھائی بہن بڑی اکثریت تھے تو ہم نے کبھی انکی اکثریت اور اکثریتی رائے کا احترام ہر گز نہیں کیا۔ اور پھر دنیا کے نقشے پر وہی آزاد بنگلہ دیش بن کر ابھرے۔ کتنے آزاد ہیں وہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ثقافتی اور طبعی طور پرآزاد ہیں یہ تو ایک حقیقت ہے نا،اور یہ بھی پہلی بار ہوا کہ اکثریت نے اقلیت سے آزادی مانگی۔ آپ سازش کہو تو بھلے کہو۔ میں ہمیشہ اقلیت کی طرف ہوں پھر چاہے وہ بہاری ہوں۔
تو ہاں جب سابقہ مشرقی پاکستان میں بنگالی بہن بھائی اکثریت میں تھے تو انکے وسائل و دیگر معاملات کی تقسیم کیلئے پیرٹی کی بات کی گئی اور اکثر یتی آبادی کی بنیاد پر آدم شماری کو نہیں بلکہ وسائل و پیداوار کی بنیاد پر مانا گیا۔ باقی سب تاریخ ہے۔پھر جب خیر سے بنگالی آزاد ہوئے یا مغربی پاکستانی حکمران طبقہ ان سے آزاد ہوا۔
مشرقی بنگال اکثریت میں ہونے کے باوجود الگ ہوگیا تو کہتے ہیں کہ باقی ماندہ پاکستان کے بننے والے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے غلام مصطفی کھر سے کہا تھا " کہ جائو اور جاکر لاہور کے فلاں اخبار والوں سے کہو کہ اب وسائل کی تقسیم پیداوار کی بنیاد پر نہیں آبادی کی بنیاد پر ہوگی۔ کیونکہ اس وقت سے لیکر آج تک آبادی کے لحاظ سے پنجاب بڑا صوبہ تھا۔ اگر ملکی وسائل صوبوں میں پیداوار کی بنیاد پر تقسیم ہوں تو پھر کراچی سمیت سندھ شاید ملکی آمدنی اور محصولات کا ستر فی صد پیدا کرتا ہے۔ صوبے آج تک اپنی گیس اور تیل کی رائلٹی کیلئے وفاق سے اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ چھوٹے صوبے بڑے دریائوں اور وسائل کے ساتھ۔
حقوق اور وسائل تو دور کی بات جبکہ انکی تقسیم کے تعین کیلئے آدم شماری ایک مسئلہ بلکہ بحران بنی ہوئی ہے۔ سندھ میں آدم شماری کا پہلا مرحلہ شاید جام صادق علی نے انیس سو نوے – اکانوے میں مکمل کروانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بھی اس جلتے مسئلے پر دھماکےدار صورتحال دیکھ کر ملتوی کر گئے جو تا حال التوا میں ہے اور یکے بعد دیگرے حکومتیں ہیں کہ آنیوالوں پر ڈال کر آدم شماری ٹال جاتے ہیں۔بھائی لوگ کہتے ہیں کہ یہ کام بھی فوج کی نگرانی یا کرفیو لگائے بغیر ناممکن ہے۔
حالانکہ صرف نمبرشماری کی بات ہے، شماریات کا مسئلہ ہے۔ اسے ‏ کئی لوگ کم از کم سندھ میں ’’زندگی اور موت‘‘ کا مسئلہ قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ یہ صرف زندگی اور ذرا بہتر طور پرگزارنے کا مسئلہ ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ آدم شماری کے فارم بھرتے وقت فقط ایک زبان لکھی جائے۔ چاہے آپکی مادری زبان کوئی بھی ہو! یعنی کہ سندھ میں صرف دو زبانیں ہیں اور ملک بھر میں ملاکر کل چار پانچ زبانیں کوئی درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں ایسی بھی ہیں جو یونیسکو کے نقشے کے مطابق براہوی سمیت خطرے تلے ہیں لیکن بھائی لوگ بضد ہیں کہ بس زبانیں صوبائی ہیں۔ پوٹھوہاری کہاں جائے، سرائیکی اور وکھی، کوہستانی، گجراتی، ڈھاٹکی، پارکری، اور نہ جانے کون سی زبانیں۔ سدھرے ہوئے ملکوں میں تو پرندوں اور جانوروں کی بھی سینسس ہوتی ہے۔ جیسا کہ سندھو دریا میں (اب سندھو دریا پر بھی حق زبان کی بنیاد پر بتایا جاتا ہے؟) اندھی ڈولفن کی تعداد کل پچاس بھی شاید ہی ہو۔
اور سندھو دریا کے مچھیرے ملاح اور پانی میں یا اسکے کناروں پر پیدا اور آباد ہونے والے لوگ اور اسکے دونوں کناروں کچے میں آباد لوگ اورتھر، چولستان کے صحرائوں میں دربند خاک بسر ہوتےخانہ بدوش قبیلوں کا ہروقت سفر اور نقل مکانی کرتے لوگ یہ سب آدم شماری میں آنے چاہئیں۔ اور غیر ملکی تارکین وطن اور بین الصوبائی شہری بھی تو نا۔

.
تازہ ترین