• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے ان کی رائے نہ صرف اس لئے بہت اہمیت کی حامل تھی کہ وہ وفاقی کابینہ کے اہم رکن ہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی ان کے ادا کئے گئے یہ الفاظ پتھر پر لکیرکی مانند تھے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کی طرف سے قائم کی گئی اس کمیٹی کا بھی حصہ تھے جس نے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کیلئے اصلاحات پر مبنی رپورٹ تیار کی تھی۔ اس پس منظر میں جب ان سے یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس سے بھی اہم بات کہ حکومت نے معاملے کے اہم فریق جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ جناب مولانا فضل الرحمان کو بھی قائل کر لیا ہے تو طمانیت یقینی تھی۔ مزید استفسارپر جب انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ وفاقی کابینہ کے آئندہ اجلاس میں فاٹا اصلاحات کی منظوری دے دی جائے گی تو یقین ہو گیا کہ 1947 میں ایک مفاہمت کے ذریعے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے والے قبائلی سات دہائیاں گزر جانے کے بعد اب عملی طور پر بھی پاک وطن کے وجود کا حصہ بن جائیں گے۔ وفاقی حکومت کے اس تاریخی فیصلے کی قبائلی عوام کے نزدیک اہمیت کا اداراک اس وقت ہوا جب یہ اطلاع چوبیس جنوری کو ایک خبر کی صورت میں نشر کی تو ٹیلی فون کالز کا ایک تناتا بندھ گیا۔ پشاور سمیت فاٹا سے کال کرنے والے واقف اور ناواقف سب یہی جاننے کے خواہش مند تھے کہ فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق جیو نیوز سے نشر ہونے والی خبر کیا واقعی درست ہے بلکہ ایک دوست نے بھی تصدیق چاہی کہ کسی نے سوشل میڈیا پر ایسے ہی در فنطنی تو نہیں چھوڑ دی۔ اطلاع درست ہونے کی تصدیق کرنے والوں کی خوشی کا اظہار ان کی جذبات سے بھرپور آوازسے بخوبی لگایا جا سکتا تھا۔ دہائیوں سے استعماری نظام کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہونے والوں کیلئے اس سے بڑی خوشخبری کوئی نہیں تھی ،ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے سالوں سے پاکستان کا حصہ بننے والوں کو پاکستانی کہلانے کا حق اب حاصل ہونے جا رہا تھا۔اب تو فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی نے بھی شاہ جی گل آفریدی اور غالب خان کی قیادت میں فاٹا اصلاحات کی مکمل حمایت کا اعلان کر کے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے کہ سات فروری کو وزیر اعظم نواز شریف کی صدارت میں منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فاٹا اصلاحات کی منظوری ایجنڈے میں شامل ہے۔ قبائلی عوام کے ان نمائندوں نے بھی فاٹا کی سات ایجنسیوں اور چھ قبائلی علاقہ جات کے بتدریج خیبر پختونخوا میں انضمام کو ایک تاریخی اقدام قرار دیتے ہوئے اصلاحات کو قبائلی عوام کیلئے ایک خوشخبری سے تعبیر کیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے نومبر 2015میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی جس نے نہ صرف متعلقہ ایجنسیوں کا دورہ کیا بلکہ فاٹا کے شراکت داروں ،مقامی آبادی سمیت تمام فریقین سے تفصیلی مشاورت کی اور اپنی سفارشات کی صورت میں اصلاحات کا ایک جامع پیکیج قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کی اب وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کی جا رہی ہے۔ اسی دوران مولانا فضل الرحمان اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے قائد محمود خان اچکزئی کی طرف سے فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت بھی سامنے آئی تاہم وفاقی حکومت نے مولانا صاحب کو راضی کر لیا اور اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے محمود خان اچکزئی کو بھی گزشتہ ہفتے ملاقات میں زبان بندی پر مائل کر لیا ہے جس کے بعد فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔ فاٹا افغانستان سے ملحقہ شمال مغربی علاقہ ہے جو 27 ہزار 200 مربع کلومیٹر میں پھیلا ہوا ہے۔ فاٹا کی سات ایجنسیوں میں باجوڑ، مہمند، خیبر،کرم ،اورکزئی،شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں جبکہ فرنٹیئر ریجنز کے نام سے پشاور، کوہاٹ، بنوں، لکی مروت،ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے اضلاع سے متصل چھ قبائلی علاقہ جات بھی فاٹا کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ فاٹا سیکرٹریٹ کے تخمینے کے مطابق فاٹا کی آبادی تقریبا 48 لاکھ نفوس پہ مشتمل ہے۔ اٹھارویں صدی سے یہ علاقہ مہاجروں اور حملہ آوروں کی گزرگاہ رہا ہے۔ آریہ اور اسکندر اعظم کے ادوارسے سوویت یونین اور برطانوی راج تک اس علاقے کو فتح کرنے یا زیر تسلط لانے کی ان گنت مہمات چلائی گئیں تاہم مجموعی طور پر قبائلی عوام کو سر نگوں نہ کیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ نے ان علاقوں میں بطور سپر پاور اپنی حکمرانی کا بھرم رکھنے کیلئے قبائلی ایجنسیاں بنائیں، خیبر ایجنسی کا وجود 1878،کرم ایجنسی کا 1892 اور مالا کنڈ،ٹوچی اور وانا کا 1896 میں عمل میںلایا گیا۔برطانوی راج نے غیورقبائلیوں کو قابو میں رکھنے اور انتظامی احکامات سے انحراف کی صورت میں اجتماعی سزا کیلئے 1876 میں پہلی بار بدنام زمانہ فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز(ایف سی آر) کو نافذ کیا گیا لیکن خاطر خواہ نتائج نہ ملنے پر 1901 میں نظر ثانی شدہ ایف سی آر کے نفاذ کے ذریعے انتظامی افسران کو مذید بااختیارات بنا دیا جبکہ اسی سال شمال مغربی سرحدی صوبہ بھی بنایا گیا۔ پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ بھی اسی دور میں تشکیل دیا گیا۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد بھی استعماری دور کے نظام کو برقرار رکھا گیا ، گورنر سرحد( اب کے پی ) جو گورنرجنرل کا ایجنٹ ہوتا تھا اسے صدر پاکستان کا نمائندہ قرار دے دیا گیا جو فاٹا کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ فاٹا کو نہ خیبر پختونخوا حکومت کے ماتحت کیا گیا اور نہ ہی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو فاٹا پر کوئی اختیار دیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل چند مخصوص انتظامی معاملات کو وزارت سیفران کے دائرہ کار میں شامل کیا گیا جبکہ فاٹا میں ترقیاتی منصوبوں اور ان کی نگرانی کیلئے 2006ءمیں فاٹا سیکرٹریٹ قائم کیا گیا۔ صدیاں بیت گئیں ،پاکستان کے قیام کوبھی سات دہائیاں گزر گئیں،کئی حکومتیں آئیں اور گئیں لیکن آج بھی فاٹا کی ہر ایجنسی کے نظم و نسق کا ذمہ دار پولیٹیکل ایجنٹ ہی ہے جبکہ فرنٹیئرریجنز کا انتظام متعلقہ ڈپٹی کمشنر کے ذمے ہے جو پولیٹیکل ایجنٹ کے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ قیام پاکستان سے آج تک فاٹا میں عمل داری کیلیے فاٹا ڈی سی ریگولیشن 1970ءسے پاکستان آرمی ترمیمی ایکٹ 2015 ءتک 182 قوانین کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا کر کام چلایا جاتا رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے اور بار بارگھر سے بے گھر ہونے والے قبائلیوں کو ماضی میں بھی قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششیں ضرور کی گئیں لیکن وہ کبھی بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کی طرف سے فاٹا کو سرحد میں شامل کرنے کیلئے 1976 میں جنرل ریٹائرڈ نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرنے سے 2015 میں فاٹاسیکرٹریٹ کی طرف سے فاٹا گورننس کے طویل مد تی منصوبے تک 13 بار اصلاحات اور رپورٹیں تیار کی کی گئیں لیکن قبائلی عوام کی قسمت کھوٹی ہی رہی۔ امید کا دیا ایک بار پھر روشن ہو چکا، اٹھارویں صدی سے رائج نظام کے خاتمے کیلئے قبائلی عوام کو ایک اور امید بندھ چکی۔ فاٹا اصلاحات نے ایک بار پھر ان کی آنکھوں میں سپنے سجا دئیے ہیں کہ آئندہ پانچ سال میں نہ صرف قبائلی علاقوں میں بارود کے بادل چھٹ جائیں گے بلکہ ان کیلئے بھی امن،ترقی اور خوشحالی کا سورج طلوع ہو گا اور وہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن کر اس کی کرنوں کو اور روشن کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ گزارش بس اتنی ہےکہ وزیر اعظم نواز شریف ،وفاقی و صوبائی حکومتیں، سیاسی جماعتیں،مسلح افواج اور فاٹا کے تمام فریقین ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر قبائلی عوام کی امید کے اس دئیے کے گرد حصار بنا لیں تاکہ اس بار یہ بجھنے نہ پائے۔ اگر قبائلی عوام کی امید کا یہ دیا جلتا رہا تو اس کی لو تاریخ کے صفحات کو بھی روشن کر دے گی جس میں اس دئیے کی حفاظت کرنے والا ہر کردارسنہری حروف میں کندہ اپنا نام دیکھ سکے گا۔

.
تازہ ترین