• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوسری جنگ عظیم کے دوران 1940کے گرما میں جب ہٹلر نے جرمنی سے باہر مغربی یورپ کے کئی محاذوں پر میدانی جنگ کے ایک کے بعد ایک معرکے میں فتح حاصل کرلی تو لندن پر ہولناک ہوائی بمباری کا سلسلہ شروع کیا، جب چار براعظموں پر حکمرانی کرنے والی برطانوی قوم کا اجتماعی دل دہل گیا کہ ہٹلر کی افواج برطانیہ بھی فتح کرنے کو ہیں۔ ایسے میں کمال دانش سے برطانوی قیادت نے قوم کو یہ واضح کرکے نفسیاتی طور پر مستحکم کردیا کہ’’اگر قومی سلامتی کے طویل خطروں سے دو چار برطانیہ کی عدالتیں بدستور کام کررہی ہیں(یعنی جیسے وہ زمانہ امن میں کرتی ہیں) تو قوم مطمئن رہے کہ برطانیہ محفوظ ہے، ہماری سلامتی کو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔ گویا وزیر اعظم چرچل کے ایک ہی فقرے کے ہمہ گیر تجزیے نے ریاست برطانیہ کی سلامتی، عوام الناس کو حاصل فراہمی انصاف کی سلامتی سے مشروط کردی اور ایک لمحے میں ان کا مورال مطلوب حد سے بھی آگےبڑھادیا کہ عوام جانتے تھے کہ عدالتیں معمول کے مطابق کام کررہی ہیں۔ ونسٹن چرچل کی ا س فلاسفی پر ذرا غور تو فرمائیں، اس کے ہر ہر پہلو کا جائزہ لے لیا جائے،جواب ہر طرف سے ایک ہی نکلے گا کہ کسی ریاست میں فراہمی انصاف کا شفاف نظام جس پر ریاستی باشندے مکمل اطمینان رکھتے ہیں تو وہ لاشعوری طور پر خود کو مکمل محفوظ سمجھتے ہیں۔ انہیں اپنے ملک میں کسی کے ظلم و جور کا کوئی خوف نہ ہو، وہ اپنے آپ کو اسی محفوظ ترین اسٹیٹس میں رکھنے کے لئے اس کی حفاظت کے لئے ہر لمحہ مرنے کٹنے پر تیار ہوں گے اور بحیثیت قوم مکمل متحد بھی۔ اندازہ لگائیں’’یہ کامل اتحاد اور اپنے مکمل محفوظ ہونے کا یقین‘‘۔ کتنی بڑی طاقت ہے، اگر بغیر کسی اسلحہ کے انبار کےیہ یقین ہی کامل ہو تو واقعی گوشت پوست کے انسانوں سے ہی’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار محاورتاً نہیں ہے(اتحاد اور بوجہ منصف معاشرے میں اپنے محفوظ ہونے کا یقین)میں سے ایک بھی یعنی’’قومی یا عوامی اتحاد‘‘میں ہی یہ طاقت نہیں ہوتی؟ کہ قوم’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘ بن جاتی ہے۔ اپنے بذریعہ نظام محفوظ ہونے کا یقین تو سونے پہ سہاگہ ہے۔ہم نے اپنی70 سالہ تاریخ کے اتار چڑھائو میں اس قومی اتحاد کی طاقت کا مظاہرہ بطور’’سیسہ پلائی دیوار‘‘ دو مرتبہ دیکھا ہے جو ہمیں بوقت خطرہ ہی نصیب ہوا۔ ایک جنگ ستمبر 65ء میں دوسرا مئی1998ءمیں جب ہم نے بھارت کی دھمکی آمیز دوسرے ایٹمی دھماکوں پر اپنی ایٹمی طاقت پوری دنیا پر آشکار کی۔ ہر دو سنہری ابواب(جنگ ستمبر اور یوم تکبیر) پر ہماری عدالتیں کوئی مثالی نہ تھیں، بلکہ ہر اپوزیشن کا یہ مستقل بیانیہ ابتدائے پاکستان سے ہی بن چکا تھا کہ وہ عدلیہ کے انتظامیہ کے زیر اثر ہونے کا الزام بھی لگاتی اور خود بھی دعوے کرتی کہ وہ برسراقتدار آنے پر ملکی عدلیہ کو انتظامیہ سے پاک کرکے آزاد اور غیر جانبدار بنائے گی، لیکن فقط قومی سلامتی کے ایک ہی لازمے’’قومی اتحاد‘‘ نے ہی ہر دو قومی مراحل (جنگ ستمبر اور ایٹمی تجربات کرنے پر) نے کام دکھادیا۔ عالمی سیاست کے بھرے بازار میں پاکستان کی سلامتی کو مستحکم تسلیم کیا گیا، سب سے بڑھ کر خود پاکستانیوں کا یہ یقین پختہ ہوا کہ وہ اپنی اور اپنے حکمرانوں کی تمام تر خامیوں اور برائیوں کے باوجود اپنی’’سلامتی پر متحد‘‘ ہونے کے باعث ایک محفوظ ریاست کے شہری ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کوئی سوئیزر لینڈ یا سویڈن جیسی کوئی سیکورٹی فری اسٹیٹ ہوگئے ہیں۔
آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ عین بڑے خطرے کے وقت ہی متحدہ ہوجانا خطرے کو ٹال تو سکتا ہے۔ پاکستان کو مکمل اور مستقلاً محفوظ رکھنے کی کچھ ضروریات اور بھی ہیں، ہنگامی حالت میں ضرورتاً عوامی و قومی اتحاد غنیمت تو ہے ہماری سلامتی کی مستقلاً ضمانت نہیں۔ بار بار ثابت ہوا اور ہوتا جارہا ہے کہ پاکستان ایک سیکورٹی اسٹیٹ ہے اور رہے گی، یعنی جس کی ریاستی بنیادوں میں’’سلامتی‘‘ ترجیح پر رہی ہے اور رہے گی۔’’یہ رہے گی‘‘ کیوں؟ کیا ہمیں اس سے نجات نہیں مل سکتی؟ بدقسمتی سے نہیں۔ اس’’نہیں‘‘ کو ہم اپنے تئیں ختم نہیں کرسکتے نہ عالمی و علاقائی سیاسی و نظریاتی اتحادوں کے سرگرم رکن حتیٰ کہ فرنٹ لائن پارٹنر بن کر نہ اتحادی سیاست سے کنارہ کش ہو کر ہم سکنڈے نیوئین اسٹیٹس حاصل کرسکتے ہیں ۔ یہ’’نہیں‘‘ ہم سے نہیں ہمارے مہربان ’’ہمسایوں کے رویے‘‘ اور انداز و مزاج سے جڑی ہوئی ہے، تو پھر کیا ہم بھارت برابر اسلحہ جمع کرسکتے ہیں، نہیں خصوصاً لوٹ مار کلچر پیدا کرنے اور اسی میں زندہ رہنی والی حکومتوں میں تو ہرگز نہیں۔ ہمیں کرنا بھی نہیں چاہئے، بعض صراط ہائے مستقیم ہی ایسے ہیں کہ اسلحے کے ڈھیر لگانا ضروری ہی نہیں یہ ضرورت (اسلحہ بندی) ایک حد سے نکل جائے تو قومیں خوف میں ہی جیتی ہیں اور اسی میں مرجاتی ہیں۔ غور فرمائیں ونسٹن چرچل کی قوم کو کرائی گئی یقین دہانی جو اس نے اپنے سیاسی فلسفے ’’تحفظ بذریعہ انصاف‘‘ پر۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان فراہمی انصاف کے نظام سے بھی محروم ہے۔ ایک خاص سطح تک ہمارا عدالتی نظام ’’تھانہ کچہری کلچر کی کرپشن میں لتھڑا پڑا ہے اور قومی اتحاد و تحریک سے بالائی سطح پر جس عدلیہ کو کافی حد تک انتظامیہ کے مہلک اثر سے آزاد کرایا گیا وہ ابھی ابتدائے ارتقاء میں ہے، اگرچہ اس کے بھی بہت حوصلہ افزا نتائج آچکے ہیں جس سے قوم کو استحکام بذریعہ’’پراعتماد‘‘ عدلیہ نصیب ہوا ہے، لیکن ہم بحرانوں میں گھری قوم ہیں سو دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری متحدہ کوششوں کے نتیجے میں جو کچھ بہتر عطا کیا ہے وہ قائم دائم رہے۔ ارتقاء کو بریک نہ لگے۔
ہمارا معاملہ برطانیہ پر جرمنوں کی بمباری سے پیدا ہونے والے سلامتی کے خطرات سے بہت آگے کا ہے۔ دائیں بائیں کے’’مہربان ہمسایوں‘‘ کی اتنی مہربانی ضرور ہے کہ وہ ہماری جانب اپنے اس رویے سے آگاہ رکھنے کا اہتمام کرتے رہتے ہیںکہ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری سلامتی سے کتنے مخلص ہیں۔ 5روز میں ملک گیر سطح پر دہشت گردی کے جو آٹھ حملے ہوئے ہیں، اس میںسیہون شریف کے فقیروں، فرض شناس فوجیوں اور پولیس افسران و جوانوں ا ور معصوم شہریوں کا بہنے والا پاک لہو چیخ چیخ کر پکار رہا ہے کہ ہمیں اپنی سلامتی کے لئے صرف عدلیہ ہی درست نہیں چلانی ،افواج کا سرگرم اور پولیس کا فرض شناس اور شہریوں کا پرامن اور معصوم رہنا ہی کافی نہیں۔ پہلا مسئلہ تو ایک لازمے کا ہے کہ سلامتی کے لئے متحد ہوں، عدالتیں انصاف فراہم کریں، حاکم حلف کے پابند اور ملک کے وفادار ہوںاور ان کی آل اولاد بھی ،عوام کو بنیادی سہولتیں انصاف سے ملیں ،تھانہ کچہری کلچر کا خاتمہ ہو، کرپشن اور لوٹ مار سے دور دراز جزیروں میں جانے والا عوام کا خزانہ انہیں محفوظ کرنے ،بیماریوں سے بچانے، حصول تعلیم یقینی ہونے، غربت سے دور رہنے پر لگے۔ ٹیکس کی بمطابق یقینی وصولی سے اور قوانین کے سب پر یکساں نفاذ سے عام لوگوں میں اپنے محفوظ ہونے کا یقین پیدا ہو ۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کی نہیں عوام کی ہوں، ادارے آزاد، شفاف اور قانون کے تابع ہوں، عوام کی آسانیوں اور شفافیت کے لئے محکمے جدید ٹیکنالوجی کو ممکنہ حد تک قانوناً اختیار کریں۔ سب سے بڑھ کر پارلیمنٹ شفاف اور اہل ہو۔ یہ سب تب ہوگا جب آئین کا مکمل نفاذ ہوگا۔ یہ ہوگا تو ریاست پاکستان اپنے تقاضوں کے مطابق مستحکم اور عوام محفوظ ہوں گے۔ گویا آئین کا مکمل نفاذ اور اس کا حاصل گڈ گورننس ہی ہماری سرحدوں اور داخلی سلامتی کی حتمی ضمانت ہوسکتی ہے۔ واضح رہے ضرب عضب کی کامیابی اس پر قوم کے متحد ہونے سے ہوئی اور اس کی خامیاںاس لئے کہ بمطابق آئین اس کی تکمیل میں حکومتوں نے خود رکاوٹیں پیدا کیں۔ وما علینا الالبلاغ



.
تازہ ترین