• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل پورے ملک کی فضا انتہائی سوگوار اور غمگین ہے، اس دہشت گردی کا آغاز لاہور میں کیمسٹوں اور فارما انڈسٹری والوں کے احتجاج سے شروع ہوا ہے اور اس کے بعد پھر پشاور، کوئٹہ اورسیہون شریف میں لگاتار بم دھماکے اور دہشت گردی ہوئی ہے۔ اللہ کرے کہ آئندہ یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ لاہور اورسیہون شریف میں دہشت گردی کا واقعہ بہت بڑا ہوا جس میں 104افراد شہید اور 403زخمی ہوئے جبکہ مجموعی طور پر اس پورے ایک ہفتے میں 200ا فراد شہید اور 432زخمی ہو چکے ہیں۔ حکومت اور فوج کی طرف سے اگرچہ اس دہشت گردی کے بعد بڑے سخت بیانات آئے۔ بیانات تو ماضی میں بھی سخت ترین آتے رہے مگر دہشت گرد آج بھی اس طرح منظم اور سرگرم عمل ہیں۔ کسی حکومتی شخصیت نے بڑا عجیب بیان دیا کہ اب کسی کو دہشت گردی نہیں کرنے دیں گے۔ ارے بابا پہلے جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ کیا کسی سے پوچھ کر ہو رہی ہے اور اب جو دہشت گردی ہوئی تو کیا آپ سے باقاعدہ اجازت نامہ لیں گے۔ جگہ جگہ ناکے، جگہ جگہ خون، سرچ آپریشن، لاشوں کے ڈھیر، سخت ترین سکیورٹی، خودکش حملے اور بم دھماکے، اس ملک کا نقشہ ہی بدل گیا ہے۔ جہاں پر لوگ کبھی دہشت گردی کے نام سے واقف نہیں تھے آج بازاروں اور سڑکوں پر لوگ سہمے سہمے اور خوفزدہ پھر رہے ہیں ۔
خون کی ہولی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ پتہ نہیں 1947ء سے اب تک اس دھرتی کا پیٹ خون پی کر بھرا کیوں نہیں؟ ناکوں پر لمبی لمبی گاڑیوں کی قطاریں سیکورٹی کے نقطہ نظر سے انتہائی خطرناک ہیں، مگر کسی کو یہ سمجھ نہیں آتی اللہ نہ کرے کہ اگر یہاں کچھ ہو گیا، کیوں کہ ہر ناکے پر پچاس سے سو گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ گاڑیاں پٹرول بم ہیں۔
فارما انڈسٹری اور کیمسٹوں نے کس منحوس گھڑی احتجاج شروع کیا کہ اب ہر روز کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف خودکش حملہ آوروں کی ایک ویڈیو فیس بک پر چل رہی ہے، جس میں ان کا لیڈر دہشت گردی کے واقعات میں بے گناہ افراد کی ہلاکت پر خداکا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ہمارا مشن کامیاب رہا اور کہتاہے کہ ہمیں اپنے کام میں مزید شدت لانا ہو گی اور ساتھ ہی وہ نام نہاد مذہبی رہنما یہ فرماتے ہیں کہ حملوں میں مذہبی عبادت گاہوں کا پورا احترام رکھا جائے۔ لوگوں کی جانوں کو بھی نہیں نقصان پہنچائیں گے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ لوگوں نے مساجد، چرچ، گردوارہ اور مندروں تک پر تو حملے کر دئیے اور رہا سوال لوگوں کی جانوں کی حفاظت کا، کبھی کوئی ایسی دہشت گردی ہوئی ہے جس میں کسی کی جان نہ جائے۔ ہزاروں بے گناہ افراد کو تم نے شہید کر دیا اور لاکھوں افراد کو زخمی کر دیا۔ ابھی بھی کہتے ہو کہ ہم دین کی خدمت کر رہے ہیں۔ یہ کس قسم کی دینی خدمت ہے؟ جس روز لاہور میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا اس سے اگلے روز لاہور کے دو تعلیمی اداروں کی سیکورٹی کا عالم یہ تھا کہ صرف دو سپاہی وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں تعلیمی ادارے حادثے والی جگہ سے صرف دو کلومیٹر دور ہیں۔ ہم نام نہیں لکھ رہے کیونکہ اس وقت بے شمار ایسی جگہیں ہیں جہاں پر سیکورٹی انتہائی ناقص ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
فارما انڈسٹری والے اور کیمسٹ حکومت کی طرف سےلاگو قواعد و ضابطوں میں آنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ حکومت نے عوام کی صحت کی خاطر یہ قدم اٹھایا کہ اس نے 1976ء کے پنجاب ڈرگ ایکٹ میں ترامیم کی ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کوئی بیسیوں مرتبہ مختلف تقاریر میں کہہ چکے ہیں کہ ادویات میں ملاوٹ ناقابل معافی جرم ہے۔ عوام کو دوا کے نام پر موت بیچنے والے مافیا کے خلاف اعلان جنگ اور انسانیت کے قاتل کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ جب حکومت نے یہ سب اعلانات کر دئیے تو پھر مافیا کے ساتھ مذاکرات کیوں کئے جائیں؟ یہ تو چوری اور سینہ زوری والی بات ہوئی۔ ہمیں سانگھڑ کی ایک تصویر یاد آ رہی ہے جو وہاں ڈاکوئوں کے احتجاج کی تھی۔ جو پولیس کی طرف سے زیادہ بھتہ مانگنے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یعنی اب اس ملک میں ہر مافیا کو اس بات کی کھلی آزادی ہونی چاہئے کہ وہ جو چاہے کریں۔ ان پر کوئی قانون لاگو نہیں۔ ہمارے ہاں سب سے زیادہ کنفیوژن اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ادارہ پہلے بنا لیتے ہیں اور قواعد بعد میں یا پھر جب آپ کوئی قانون ضابطے اور قواعد بنا رہے ہوتے ہیں اس وقت کسی سے کوئی تجویز نہیں لیتے اور بعد میں جب احتجاج شروع ہوتا ہے تو خیال آتا ہے کہ اب اس قانون میں تبدیلی کی جائے۔ مثلاً پی پی کی حکومت نے ڈرگ ریگولیشن اتھارٹی آف پاکستان یعنی (DRAP) بنائی۔ اور اپنی ایک خاتون وزیر کو خوش کرنے کے لئے اس کا وزیر مقرر کر دیا۔ اس وزیر نے بجائے کہ اس ادارے کو مضبوط کرتی، قوانین بناتی، ضابطے تیار کرتی وہ کچھ اور سرگرمیوں میں مصروف ہو گئیں۔ DRAP ادویات کی رجسٹریشن کرتا ہے اور ادویات کی رجسٹریشن کیسے ہوتی ہے؟ اور کیسے کیسے رشوت دی جاتی ہے اور کیوں لوگ ڈریپ میں گھسنا چاہتے ہیں؟ ایسے بہت سارے سوالات ہیں جن کے بارے میں ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف تو حکومت اٹھارہویں ترمیم کے بعد 2010ء میں تعلیم اور صحت کے محکمے صوبوں کو دے دیتی ہے دوسری طرف وفاق میں ادویات کے معیار کو چیک کرنے اور رجسٹریشن کرنے کے لئے ادارہ بنا دیتی ہے۔ ارے بابا جب تمام صحت کے ادارے صوبوں کے پاس چلے گئے تو پھر چیکنگ اور رجسٹریشن کا نظام بھی صوبوں کے پاس ہونا چاہئے۔ ادویات سازی پورے ملک کے صوبوں میں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوںمیں ہو رہی ہے۔ تو پھر اس وفاقی ادارے کی ضرورت کیا تھی؟ کیوں نہیں ادویات کی رجسٹریشن اور معیار کے حوالے سے اتھارٹی پاکستان کے پانچوں صوبوں اور آزاد کشمیر میں قائم کرنی چاہئے تھی۔
حکومت کے پاس ٹیکنوکریٹس اور وژن رکھنے والے لوگوں کی شدید ترین کمی ہے خصوصاً صحت اور تعلیم کے شعبے میں اِس وقت جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، وہ سب اب کے پیدا کئے ہوئے نہیں بلکہ پی پی کی حکومت نے بعض اداروں کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ جب آپ محکمے صوبوں کو دے رہے ہوں تو باقی امور جن کا تعلق صوبوں کے کنٹرول میں ہے تو اُن اداروں کو بھی صوبوں میں قائم کرو۔

.
تازہ ترین