• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک بھر میں جاری مردم و خانہ شماری کے ایام جوں جوں گزر رہے ہیں ایسے لوگوں کی بے چینی بڑھتی جارہی ہے جن کے گھروں تک اندراج کرنے والا عملہ تاحال نہیں پہنچا۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گلشن اقبال کے مکینوں کو شکایت ہے کہ ان کے علاقے میں سیکڑوں فلیٹوں پر مشتمل پلازوں سمیت متعدد عمارتوں پر ’’ش‘‘ کا نشان نہیں لگا جس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ عمارتیں اس وقت تک خانہ شماری سے باہر ہیں۔ ان سطور میں گلشن اقبال اور شہر قائد کا ذکر بطور مثال کیا گیا ہے وگرنہ متعدد دیگر علاقوں سے بھی ایسی ہی شکایات مل رہی ہیں۔ بعض مقامات کے رہنے والے افراد ایک سے زائد سروے ٹیموں کی مختلف اوقات میں آمد کے حوالے سے شکوک میں مبتلا ہیں۔ ایسے حالات میں کہ بعض صوبوں اور علاقوں میں آبادی اور وسائل کے تخمینوں پر تحفظات پائے جاتے ہیں، 19برس بعد کی جانے والی خانہ و مردم شماری کو ہر اعتبار سے شفاف بنانے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار بذات خود اس بات کی نگرانی کررہے ہیں کہ مذکورہ عمل عالمی معیار کے بہترین اصولوں کے تحت مکمل کیا جائے۔ اس باب میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خانہ اور مردم شماری کے پورے عمل کی مانیٹرنگ پر زیادہ توجہ دی جائےکیونکہ نچلی سطح پر رہ جانے والی بعض خامیاں اگر بروقت دور نہ کی جائیں تو مجموعی عمل کے بارے میں بین الاقوامی سطح پر کوئی بھی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے، خود اپنے عوام کی نظر میں اس کا اعتبار قائم ہونا آسان نہیں رہتا۔ اس مردم شماری کے حوالے سے متعلقہ مراکز کے پتے اور ٹیلیفون نمبر مشتہر نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ اپنی شکایات کہاں درج کرائیں۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ خانہ و مردم شماری کا عمل ہر طرح سے شفافیت کا حامل ہو جبکہ عام لوگوں کی بڑی تعداد اپنے علاقے کے مردم شماری مرکز کے پتے اور ٹیلیفون نمبر سے لاعلم ہے۔ ان حالات میں مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اخبارات، الیکٹرونک میڈیا اور ایس ایم ایس کے ذریعے عام لوگوں کو ان کے علاقے میں واقع مردم شماری مراکز کے پتوں اور ٹیلیفون نمبروں سے آگاہ کیا جائے۔

.
تازہ ترین