• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’بھارت نے اربوں ڈالرز اپنے جنگی جنون کی نذر کر دیئے۔ تین سالوں کے دوران ساڑھے 12ارب ڈالرز غیر ملکی اسلحہ کی خریداری پر صرف کر دیئے۔ بھارتی لوک سبھا میں پیش کی گئی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران بھارت نے 12.4ارب ڈالر کا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان درآمد کیا ہے‘‘ یہ خبر پڑھ کر مجھے برمنگھم کے تلقین شاہ یاد آگئے جو ایک دن مسلسل بولتے چلے جارہے تھے کہ ”غربت انسانیت کی تضحیک ہے۔ جن قوموں نے تاریخ سے سبق حاصل کیا انہوں نے غربت کا خاتمہ کر دیا۔ ہماری الہامی کتاب میں بھی جو قصص ہیں ان میں مقصد یہی ہے کہ کہ جو ذرہ برابر نیکی کرتا ہے وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے اور جو ذرہ برابر بدی کرتا ہے وہ اس کا نتیجہ دیکھ لیتا ہے“۔اور میں ان سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ انہوں نے اخبار میرے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ”تم نے یہ خبر نہیں پڑھی۔ پانچ کھرب روپے یعنی پانچ بلین ڈالر۔ تمہیں معلوم ہے نا کہ روشنی یک لخت پھیل جائے تو لمحہ بھر کے لئے آنکھوں سے بینائی چلی جاتی ہے۔ یہ خبر پڑھ کر میرے ساتھ بالکل ایسا ہی ہوا کہ پاکستان چین سے پانچ بلین ڈالر کی آبدوزیں خرید رہا ہے۔ یہ رقم پاکستان کے کل بجٹ کا تقریباً ساتواں حصہ ہے“۔
میں نے خبر تفصیل سے پڑھی اور کہا ”میرے نزدیک دنیا میں عزت کے ساتھ زندہ رہنے کے لئے یہ کوئی بہت بڑی رقم نہیں۔ اس سے پہلے ایٹم بم بنانے اور میزائل تیار کرنے پر ہم اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کر چکے ہیں۔ یہ سارا کچھ ہمیں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے سبب کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا کل سالانہ بجٹ تقریباً 35بلین ڈالر ہے اور بھارت کا صرف سالانہ فوجی بجٹ 25بلین ڈالر ہے مگر یہ امریکہ کے دفاعی بجٹ کا تقریباً نصف ہے لیکن اس بات کو بھی ذہن میں رکھیں کہ امریکہ میں ایک آدمی بھی خطِ غربت کے قریب نہیں ہے جب کہ بھارت میں پچاس کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر یہ پانچ بلین کیا ہیں۔ لوگ کہتے ہیں صرف پاکستانی سیاست دانوں کے سوئس بینکوں میں دو سوبلین ڈالر پڑے ہوئے ہیں“
انہوں نے عینک اتاری۔ اس کے شیشے صاف کیے اور لہجے میں تھوڑی سی نرمی لا کر کہا ”میں پاکستانی ہوں اور پانچ کھرب روپے کی آب دوزیں خریدنے پر کسی پاکستانی کو بھی اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن پاکستان کی حفاظت کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کیا ملک و قوم کے لئے صرف غریبوں سے قربانیاں لی جائیں گی۔ وہ غریب جن کے گھروں پر لوڈ شیڈنگ کا آسیب مسلط ہوچکا ہے۔ جن کے ٹھنڈے چولہوں سے بھوک کی بھاپ اٹھ رہی ہے۔ جن کے میلے کپڑوں پر بدبو کے داغ جل رہے ہیں۔ جہاں مہندی کا انتظار کرتے کرتے بیٹیوں کے بال سفید ہوگئے ہیں۔ جن کے بچے صبح اسکول کے لئے نہیں تلاشِ رزق کے لئے نکلتے ہیں۔ کیا انہیں اور غریب تر کیا جائے گا۔ کیا کبھی وہ وقت آئے گا جب ملک کے تمام تر وسائل پر اشرافیہ کے ناجائز قبضے کو کوئی شخص یا کوئی ادارہ چیلنج کرے گا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ دنیا میں عزت کے ساتھ جینے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے معاشی ترقی۔ جب تک ہم معاشی اعتبار سے مستحکم نہیں ہونگے دنیا پاکستانی پاسپورٹ کو حقارت سے دیکھتی رہے گی۔“
میں نے انہیں پھر سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس بات کا آب دوزیں خریدنے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور اس معاملہ میں ماضی یا تاریخ سے بھی کیا سبق سیکھنا؟ ہمارا حال چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہمیں لوگوں کو آسانی سے جینے کی سہولتیں فراہم کرنا ہونگی ہم سب چاہتے ہیں کہ پاکستان میں غربت کا خاتمہ ہو“
ان کا لہجہ پھر بلند ہو گیا بولے۔ ”جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتے ان کا حال درست نہیں ہو سکتا۔ سوویت یونین کی کہانی تمہارے سامنے ہے یہ کوئی پرانا قصہ نہیں کہ یاد نہ رہا ہو۔ کونسا اسلحہ ان کے پاس نہیں تھا۔ کونسا ایٹم بم وہ نہیں رکھتے تھے۔ کونسی آب دوزیں ان کے پاس نہیں تھیں لیکن معاشی طور پر تباہ ہوا تو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایسی تاریخ میں اور کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ زندہ قومیں ماضی کے قصائص سے مستقبل کے فیصلے کیا کرتی ہیں۔ جس طرح فرد کا فیصلہ انفرادی زندگی میں نتیجہ خیز ہو تا ہے، بالکل اسی طرح قوموں کے فیصلے ان کی اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ قومیں اخذ کرتی ہیں دیکھتی ہیں اُن سے پہلے گزری ہوئی قوموں کو کس انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ شاید یہی فلسفہء تاریخ ہے کہ اس طرح کہ گزرے ہوئے واقعات انتہائی نصیحت بخش اور عبرت انگیز ہیں۔ بہرحال وہ جستہ جستہ واقعات۔ وہ تاریخ کے رف اسکیچ۔ وہ ماضی کی آڑی ترچھی لکیریں۔ قوموں کے لئے انہیں عقل و دانش سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر حکمرانوں نے انہیں دیکھ کر فیصلے نہ کیے تو پھر تباہی ہو گی۔ انقلاب آئے گا“
میں ہنس پڑا۔ میں نے کہا ”انقلاب کی وعیدیں تو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی اکثر دیتے رہتے ہیں۔ عمران خان بھی تبدیلی کے لئے مسلسل حالت جنگ میں ہیں۔ لیکن کچھ ہو نہیں رہا۔ دور دور کسی انقلاب کسی تبدیلی کی آہٹ نہیں سنائی دے رہی۔“
تلقین شاہ نے اٹھ کر چائے کی کیٹل کا بٹن آن کیا اور میرے پاس آکر بولے ”عمران خان تبدیلی لا سکتے ہیں۔ انہیں صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ پارٹی ممبر شپ کے لئے ضروری قرار دے دیں کہ جو شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا دسواں حصہ پارٹی کو دے گا۔ اس رقم سے وہ پارٹی کے ممبران جو کچھ نہیں کماتے ان کی حالت بہتر بنائیں۔ لاکھوں کروڑوں کے حساب سے لوگ ان کے پارٹی ممبر بنیں گے۔ خاص طور پر ملک بھر کے غریب ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے“۔ میں اب کھل کر ہنسا اور میں نے کہا ”عمران خان نے اگر آپ کے مشورہ پر عمل کر لیا تو سب لوگ ان کی پارٹی چھوڑ جائیں گے کہ یہاں تو دسواں حصہ دینا پڑتا ہے“ تلقین شاہ نے بڑے یقین سے کہا ”کوئی بھی چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ انہیں اپنی آمدنی کا دسواں حصہ دینے پر تیار ہو جائیں گے ۔ لوگ سچ مچ تبدیلی چاہتے ہیں اور انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ عمران خان کو دیا ہوا ایک روپیہ بھی غلط استعمال نہیں ہو گا۔ بڑے بڑے سرمایہ دار اس کام کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ صرف عمران خان کے اعلان کی دیر ہے اور پھر جمع ہونے والے اربوں کھربوں روپے سے جب وہ اپنے غریب کارکنوں کی زندگی میں تبدیلی لانا شروع کریں گے تو ان کا راستہ روکنے والے ملک سے ہی فرار ہو جائیں گے۔ یہ ہوگا نیا پاکستان۔“میں نے تلقین شاہ کو چھیڑتے ہوئے کہا ”پھر پانچ کھرب روپے کی آبدوزیں خرید لیں نا“ بیزاری سے بولے ”ہاں ہاں خرید لو۔ پاگلوں کے ہمسائے میں عقل مندی سے نہیں رہا جا سکتا“۔

.
تازہ ترین