• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیتوں کا حال اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ جانتا ہے البتہ قرائن سے تھوڑا بہت اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ میں فیصلہ سنانے کی بجائےمعاملہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ قارئین خود فیصلہ کرلیں کہ یہ خبث باطن ہے یا مخصوص ایجنڈا ہے یا پھر مسلم و تحقیق کا فقدان ہے۔ خبث باطن اور ایجنڈے کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے اور مخصوص ایجنڈے کے پس پردہ کچھ محرکات ہوتے ہیں۔ بہرحال میں نے عرض کیا کہ نیتوں کا حال صرف میرا رب جانتا ہے اس لئے اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ صادر کرنا مناسب نہیں۔
23مارچ کے حوالے سے لکھے گئے مضامین اور عالم و فاضل دانشوروں کے علمی نچوڑ پڑھتے ہوئے میں حیران ہوتا رہا حالانکہ میں صرف تین اخبارات پڑھتا ہوں۔ کسی زمانے میں چھ سات اخبارات پڑھتا تھا۔ پھر احساس ہوا یہ وقت کا ضیاع ہے اور یہی وقت کتابوں کو دینا چاہئے۔ چنانچہ تین اخبارات پر قناعت کرلی۔ تینوں اخبارات میں بعض ایسی تحریریں چھپیں جو حقائق کے خلاف تھیں، وضاحت طلب تھیں اوربعض اوقات کسی مخصوص ایجنڈے کا شاخسانہ لگتی تھیں۔ مطلب یہ کہ یار لوگوں نے مذہب پر تو دہشت گردی کا الزام لگایا ہی تھا اب قائداعظم پر بھی اپنے نظریات کا غلاف چڑھا رہے ہیں۔ اول تو یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان عالم و فاضل حضرات نے قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر میں سے صرف گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کے چند فقرے پڑھے ہیں، پوری تقریر بھی نہیں پڑھی ورنہ وہ اپنے پرمغز مقالات میں ان برائیوں اور مسائل کا ذکر بھی کرتے جن پر قائداعظم نے گیارہ اگست کو بڑی دردمندی بلکہ دل گرفتگی کے ساتھ روشنی ڈالی تھی۔ مجھے یہ بدگمانی اس لئے ہوتی ہے کہ اگر انہوں نے قائداعظم کی سینکڑوں تقاریر میں سے صرف دو تین درجن تقریریں پڑھی ہوتیں تو وہ کبھی قائداعظم کو سیکولر لیڈر نہ کہتے۔ اول تو یہ حضرات اس قائداعظم کو سیکولر سیاستدان قرار دے رہے ہیں جس کے منہ سے کبھی سیکولر یا سیکولرازم کا لفظ نکلا ہی نہیں۔ یقین رکھیئے قائداعظم سیکولرازم کی اصطلاح سے اچھی طرح واقف تھے، اس کے اس لفظ کے معانی اور تصور کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ اگر ان کی سوچ سیکولر ہوتی تو کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی پریس کانفرنس میں ہی سوالات کا جواب دیتے ہوئے سیکولرازم کا لفظ استعمال کرتے جب کہ ان کے مخالف کانگریسی سیاستدان اس ’’ٹرم‘‘ کو خوب استعمال کررہے تھے۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ کانگریس سیکولر ہندوستان کا پرچار اور مطالبہ کررہی تھی۔ اگر قائداعظم بھی سیکولر ہوتے تو علیحدگی کی راہ اختیار کرتے ہوئے ایک آزاد اسلامی ریاست یا مسلمان ملک کا مطالبہ کیوں کرتے؟ دم بھر کو یہ بھی سوچئے کہ اگر قائداعظم سیکولر پاکستان کا تصور پیش کرتے تو کیا ان کو مسلمان قوم کی اتنی والہانہ اور مخلصانہ حمایت ملتی جو انہیں نصیب ہوئی اور جس کے بل بوتے پر انہوں نے پاکستان حاصل کرلیا۔ 1945-46ء کے فیصلہ کن انتخابات میں مسلم لیگ نے 75فیصد ووٹ حاصل کئے اور مرکزی اسمبلی کی تمام مسلمان نشستیں جیت لیں کیونکہ یہ انتخابات پاکستان کے ایشو پر لڑے گئے تھے اور انتخابات سے قبل قائداعظم سینکڑوں بار وضاحت کر چکے تھے کہ پاکستان کی بنیاد، پاکستان کے قوانین کے ڈھانچے کی اساس اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ وہ کئی بار اعلان کر چکے تھے کہ قرآن ہمارا ضابطہ حیات ہے اور قرآن ہی ہمارا لنگر اور رہبر ہے۔ (مسلم لیگ اجلاس 1943۔ پیام عید1945وغیرہ)
علی گڑھ کے طلبہ سے خطاب میں انہوں نے یہ بات ان کے ذہنوں میں راسخ کی تھی کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمہ توحید ہے (8۔ مارچ 44) مختصر یہ کہ قائداعظم نے قیام پاکستان سے قبل101بار اور قیام پاکستان کے بعد چودہ بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار کی جائے گی۔ ثابت ہوا کہ قائداعظم سیکولر نہیں بلکہ نظریاتی سیاستدان تھے اور وہ پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انہیں سیکولر کہنا نہ صرف ان پر بہتان ہے بلکہ ان کی شخصیت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ جب خود قائداعظم نے بحیثیت گورنر جنرل امریکی عوام کے نام پیغام مورخہ فروری 1948 میں پاکستان کو پریمئر اسلامی ریاست قرار دے دیا تو پھر اس پر بار بار بحث کا دروازہ کھولنا کسی ایجنڈے کا حصہ ہی ہوسکتا ہے۔ جب قائداعظم نے عید میلاد النبیؐ کے موقع پر کراچی بار ایسوسی ایشن جیسے معتبر ادارے کو خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا اعلان کردیا تو پھر قائداعظم اور پاکستان سیکولر کیسے ہوگئے؟ (قائداعظم کا خطاب 25جنوری 1948)۔ شہری برابری، انسانی مساوات، اقلیتوں کا تحفظ اور مکمل مذہبی آزادی اسلام کے اصول ہیں جن کی سینکڑوں روشن مثالیں ریاست مدینہ کے قیام سے لے کر خلفائے راشدین کے دور تک ملتی ہیں۔ اس لئے اقلیتوں کے حقوق کی آڑ میں سیکولرازم کے ایجنڈے کو بڑھانا اسلام سے لاعلمی ہے یا پھر ارادے کچھ اور ہیں۔ سیکولر ریاست میں آزادی کے نام پر شراب نوشی، جسم فروشی، ہم جنس پرستی وغیرہ کی کھلی اجازت ہوتی ہے جبکہ اسلامی ریاست میں ان غلاظتوں پر قانونی قدغن ہوتی ہے۔ چوری چھپے قانون شکنی کو جواز بنا کر قانون ختم نہیں کیا جاسکتا۔
کالم کا دامن تنگ ہے۔ بہت سی اہم باتیں رہ جائیں گے۔ خدا کے لئے قائداعظم کو سمجھنے کے لئے ان کی تقاریر پڑھیں۔ قائداعظم نے کابینہ مشن پلان صرف اسلئے قبول کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ اس میں انہیں پاکستان کے بیج نظر آتے تھے اور دس برس بعد صوبے گروپنگ سے نکل کر آزاد ہوسکتے تھے۔ کچھ دانشوروں کا یہ منطقی استدلال بھی کم فہمی کا نتیجہ لگتا ہے کہ 1940کی قرارداد اور اپریل 1946کی اسمبلیوں کے اراکین کے کنونشن کی قرارداد میں اسلامی ریاست کا ذکر نہیں تھا۔ دوستو یہ قراردادیں انگریز حکومت سے پاکستان کے مطالبے پر مبنی تھیں۔ بدیسی حکمرانوں کو تصور پاکستان سے کیا غرض؟ تصور پاکستان تو مسلمان عوام کا مسئلہ تھا اور قائداعظم دن رات اس پر روشنی ڈالتے اور مسلمانوں کو سمجھاتے رہے۔ ایک انگریزی کالم نگار نے تو تحقیق کے فقدان کی حد کردی ہے اور سر ظفر اللہ خان کو قرارداد لاہور کا مصنف قرار دے دیا ہے۔ (ڈان 23مارچ 2017 ڈاکٹر عثمان احمد)۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خود سر ظفر اللہ خان نے اپنے ایک بیان میں وضاحت کی تھی کہ ان کا اس قرارداد سے کوئی تعلق نہیں (ڈان 21دسمبر 1981)۔ دراصل قرارداد ڈرافٹ کرنے والی کمیٹی قائداعظم، سر سکندر حیات، ملک برکت علی اور نواب اسماعیل خان پر مشتمل تھی۔ سر سکندر حیات نے پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی میں گیارہ مارچ 1941کو وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ قرارداد میں نے ڈرافٹ کی تھی لیکن اس میں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے بہت سی تبدیلیاں کیں۔ سر سکندر حیات کے بیان کی مسلم لیگ کی جانب سے تردید نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ان کا بیان درست ہے۔ (بحوالہ شریف الدین پیرزادہ Evolution of Pakistan ص 215)۔ اتنی بڑی بات لکھنے سے پہلے تھوڑی تحقیق لازم ہے تاکہ قارئین گمراہ نہ ہوں۔ یہ میری دردمندانہ گزارش ہے، مانیں نہ مانیں آپ کی مرضی۔



.
تازہ ترین