• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند ماہ قبل پنجاب میں رینجرز کو بلانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالاگیا تو یہ خاکسار بھی ناقدین میں سے ایک تھا۔جمہوری ادوار میں سویلین بالادستی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ عسکری ادارے شہروں کا رخ نہ کریں ۔گزشتہ دو سال کے دوران پنجاب میں جب بھی رینجرز کو بلانے کا معاملہ اٹھایا گیا ۔میں نے اس کی مخالفت میں دلائل دئیے۔کیونکہ پوری دنیا میں آزمودہ اصول ہے کہ آپ اپنی افواج اور عسکری اداروں کو شہروں سے دور رکھتے ہیں۔اس کی دو بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔ اگر آرمڈ فورسز سرحدوں کے بجائے شہروں میں نقل و حرکت کرتی ہیں تو لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوجاتا ہے۔جبکہ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ آرمڈ فورسز کاشہروں میں مسلسل گشت اورشہریوں سے ٹکڑاؤ ہونے کی وجہ سے اداروں اور عوام کا باہمی بھرم ٹو ٹ جاتا ہے۔اسی لئے رینجرز کی پنجاب میں آمد کی مخالفت کی تھی کہ جب یہ فورسز لاہور ،فیصل آباد اور دیگر علاقوں کی سڑکوں پر گشت کریں گی تو شہروں میں خوف کی فضا قائم ہوجائے گی۔کیونکہ پنجاب کی صورتحال او ر معروضی حالات کا کبھی بھی سندھ کی صورتحال سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔اسی لئے رائے تھی کہ پنجاب کے شہروں میں براہ راست رینجرز کی گشت اور کارروائیاں مناسب نہیں ہونگی۔
تاہم رینجرز کو طلب کرنے کے حوالے سے صوبائی حکومت نے اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کی۔رینجرز کو سندھ کی طرز پر طلب کرنے کے بجائے رینجرز آرڈیننس اور اینٹی ٹیررازم آرڈیننس پنجاب کو استعمال کیا گیا۔یہ معاملہ سندھ سے بالکل مختلف ہے۔ آئین کے آرٹیکل 245کے تحت فوج کو طلب کیا جاتا ہے۔جبکہ اسی آئین پاکستان کے آرٹیکل 147کے تحت کوئی بھی صوبائی حکومت امن و عامہ سے متعلق اپنا اختیار وفاقی حکومت کے سپرد کردیتی ہے اور رینجرز چونکہ وفاقی ادارہ ہے تو وہ صوبے میں پھر پولیس کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔مگر پنجاب میں آرٹیکل 147کے تحت رینجرز کو نہیں بلایا جارہا۔بلکہ رینجرز ایکٹ کے سیکشن 4,5اور7اور دہشتگردی ایکٹ کے تحت بلایا جارہا ہے۔ویسے سیکشن 4 کے تحت تو صوبائی حکومت محرم الحرام اور دیگر حساس صورتحال میں رینجرز کو بلاتی رہتی ہے مگر اب سیکشن 5کا اضافہ کرکے گرفتاری اور چھاپوں کا بھی اختیار دیا گیا تھا۔اس کے لئے بھی ایک جے او سی(جوائنٹ آپریشن کمیٹی ) بنائی گئی تھی،جو پولیس اور سی ٹی ڈی کی معاونت سے کاروائی کررہی ہے۔خوشی ہے کہ پنجاب میں رینجرز کا تاثر سندھ سے بالکل مختلف گیا ہے۔شہری علاقوں کے بجائے جنوبی پنجاب کے دور افتادہ علاقوں سے دہشتگردوں کو خالی کرانے پر توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔عسکری ادارے کی اپنی حدود میں رہ کر کارروائیاں کرنے سے عوام کا رینجرز پر اعتماد بڑھا ہے۔گزشتہ دو ماہ میں رینجرز نے جو کچھ پنجاب میں کیا ہے۔وہ قابل تحسین ہے۔دو روز قبل جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں بدنام زمانہ دہشتگردوں کا صفایا کرنے کے لئے جس آپریشن کا آغاز کیا گیا ۔اس میں ہمارے تین سے زائد رینجرز جوان شہید ہوئے ،ان رینجرز کے جوانوں کی شہادت ہمارے اوپر ایک قرض ہے۔فوجیں سرحدی علاقوں کی سلامتی کی ضمانت ہوا کرتی ہیں او ر یہ آپریشن بھی جنوبی پنجاب کے سرحدی علاقوں میں کیا گیا۔قارئین کی معلومات کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اس آپریشن سے قبل بھی ایک منی آپریشن میں رینجرز جوان نے قربانی دی تھی ۔جو آج ہم سب کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ انہوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کردیا ہے۔گزشتہ چند ہفتوں سے مسلسل جنوبی پنجاب کے لوگوں کے پیغامات موصول ہورہے ہیں۔پرامن لوگ رینجرز کی کارروائیوں سے بہت خوش نظر آرہے ہیں۔مگر ابھی طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔علاقے میں مقامی موثر افراد کی پشت پناہی کی وجہ سے ان ملک دشمنوں کو اولیا کرام کی دھرتی پر ڈیرے جمانے کا موقع ملا ہے۔اگلے مرحلے میں ان مقامی سرداروں کے خلاف بھی موثر حکمت عملی کے ساتھ کارروائیاں کرنا ضروری ہے۔جنہوں نے گزشتہ دو دہائیوں سےاپنے چھوٹے چھوٹے مفادات اور علاقے میں خوف وہراس قائم رکھنے کے لئے ان عناصر کو محفوظ پناہ گاہوں کی تکمیل میں معاونت کی ہے۔ڈیرہ غازی خان اور راجن پور سے تعلق رکھنے والے مقامی سرداروں کی اکثریت دہشتگردی کے خلاف اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی میں ریاست کی حمایت کرتی ہے مگر مٹھی بھر شر پسند عناصر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔آج رینجرز کے حکام پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس آپریشن کو درمیان میں چھوڑ کر مت جائیں۔ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں، ہمدردی رکھنے والوں سمیت سب کے خلاف موثر اور حتمی کارروائی وقت کی اہم ضرورت ہے۔جنوبی پنجاب کے پرامن لوگ اپنے تمام اضلاع میں دائمی امن چاہتے ہیں۔جس کےلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید محنت کرنا ہوگی۔جس دہشتگرد کو رینجرز کے بہادر جوانوں نے حالیہ آپریشن میں جہنم رسید کیا ہے۔چند سال قبل اس نے مقامی شدت پسندوں کے ساتھ مل کر ایک زندہ نوجوان کوڈیرہ غازی خان سے متصل ایک قصبہ چوٹی زیریں شہر میں سر عام جلایا تھا۔مگر آج قانون نے ماضی کے تمام قرض چکا دئیے ہیں۔
اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ رینجرز نے جنوبی پنجاب کے ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کو بھی اپنے شکنجے میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔کچھ گرفتار ملزمان سے ایسے ثبوت بھی ملے ہیں ۔جو دہشتگردوں کی مالی معاونت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ان سب پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے بغیر کسی امتیاز اور سیاسی اثر و رسوخ کے کارروائیاں کرنی ہونگی۔وگرنہ اس آپریشن کے اصل مقاصد سے ہم محروم ہوجائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ رینجرز کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس،سی ٹی ڈی اور دیگر سویلین اداروں کی استعداد کار میں اضافہ کرے۔کیونکہ پیرا ملٹری فورس کبھی بھی دائمی امن قائم نہیںکرسکتیں۔فوری امن قائم کرنے کے بعد سویلین اداروں کو دائمی امن قائم کرنے کے لئے کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔سندھ میں پچھلے20سال سے رینجرز موجود ہے،مگر آج بھی رینجرز ہٹادیں تو صورتحال وہیں پر آجائے گی۔کیونکہ وجہ یہ ہے کہ سیاسی حکومت نے رینجرز کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتری کی طرف قدم نہیں بڑھایا مگر پنجاب میں اس روایت کو توڑنا ہوگا۔



.
تازہ ترین