• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قوم کو توقع تھی کہ سپریم کورٹ سے پاناما کیس کا عدالتی فیصلہ سامنے آجانے کے بعد تمام فریق اپنے مسلسل پختہ وعدوں اور یقین دہانیوں کے مطابق اسے تسلیم کرلیں گے اور ملک سوا سال سے جاری اس خلفشار سے پرامن طور پر نجات پالے گا جس سے اس پوری مدت میںہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ لیکن عملاً ایسا نہیں ہوسکا ہے اور کئی اپوزیشن رہنما ؤں کا طرزعمل عدالتی فیصلے کے تقاضوں کے منافی نظر آتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری جو سرے سے یہ معاملہ عدالت میں لیجانے کے خلاف تھے، ایک روز پہلے عدالتی فیصلے کو جمہوریت کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے عملاً مسترد کرچکے ہیں جبکہ گزشتہ روزپارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اس حوالے سے شدید ہنگامہ آرائی رہی،اپوزیشن نے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں کے خلاف جوائنٹ انویسٹی گیشن کے عدالتی حکم کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے وزیر اعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کیا جبکہ حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں کے اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے معطل کرنے کی راہ اختیار کی۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ پاناما کیس میں وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ آیا ہے،دو ججوں نے واضح طور پر انہیں نااہل قرار دیا ہے اور باقی تین نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی، انہوںنے سپریم کورٹ کے فیصلے میں جے آئی ٹی بنانے کو ڈرامہ اور باعث شرم قرار دیا جو بظاہر عدلیہ کے احترام کے تقاضوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ان کا موقف تھا کہ جے آئی ٹی بھی عدلیہ کے ارکان ہی پر مشتمل ہونی چاہیے تھی کیونکہ وزیر اعظم کے ماتحت اداروں کے افسران ان کے خلاف تحقیقات نہیں کرسکتے ۔ انہوں نے وزیر اعظم کے استعفے کو پارلیمنٹ کے بچاؤ کے لیے ضروری قرار دیا۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے بھی عدالتی فیصلے پر عدم اطمینان کا واضح اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ شریف خاندان پر ہمیشہ نرم ہاتھ رکھتی ہے۔مریم نواز جو سارے مسئلے کا منبع ہیں ،انہیں جے آئی ٹی بننے سے پہلے ہی فارغ کردیا گیا ہے۔انہوں نے جے آئی ٹی کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ پیپلز پارٹی وزیر اعظم سے استعفیٰ لینے کے لیے نئی حکمت عملی طے کرے گی۔تاہم امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے جے آئی ٹی بنائے جانے کے حکم کو مثبت پیش رفت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو کلیئر نہیں کیا، مقدمہ ختم نہیں ہوا بلکہ آگے بڑھا ہے، پاناما اسکینڈل کا فیصلہ مکمل انصاف کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ان کا موقف تھا کہ اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم تحقیقات کے دوران دو ماہ تک اپنے اختیارات سے دستبردار ہوجائیں اور اگر جے آئی ٹی میں بے قصور ثابت ہوں تو ازسرنو منصب سنبھال لیں۔جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کو بے فائدہ قرار دیا اور جمعہ کو اسلام آباد میںجلسہ عام کرنے اور وزیر اعظم کے استعفے کے لیے سڑکوں پر تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ ملک کے کروڑوں عوام اس ساری صورت حال کو تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس کے جاری رہنے کی صورت میں گوناگوں سنگین داخلی اور بیرونی چیلنجوں سے دوچار ملک کو مزید انتشار کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان کے لیے یہ امر بھی ناقابل فہم ہے کہ اگر ہماری سیاسی قیادت ملک کو کرپشن سے واقعی نجات دلانا چاہتی ہے تو اپنی صفوں میں موجودکرپشن کے حوالے سے بدترین شہرت کے حامل رہنماؤں اور شخصیات کے خلاف اقدام کیوں نہیں کرتی۔ اس امر واقعی کی بناء پر لوگ بالعموم یہ سمجھتے ہیں کی بیشتر سیاسی رہنما پاناما کے پردے میں سیاسی مفادات کی جنگ لڑرہے ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ نے سزا دینے میںاحتیاط کے مسلمہ عدالتی تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے دو ماہ کی مقررہ مدت میں پورے میکا نزم اور طریق کار کی وضاحت کے ساتھ معاملے کی مزید تحقیقات کا حکم دیا لہٰذا سب کو اس عمل میں تعاون کرتے ہوئے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے تاکہ ملک انارکی اور انتشار سے محفوظ رہے اور عدل کے تمام تقاضے بھی پورے ہوسکیں۔

.
تازہ ترین