• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دفاعی، صنعتی و تجارتی اور عوامی تناظر میں ریلوے انتہائی فعال محکمہ سمجھا جاتا ہے اسٹیم انجن کے زمانے میں بھی ملک کے طول و عرض میں ریلوے ٹریفک رواں دواں تھی اور پاکستان ریلوے ملکی معیشت میں بڑا فعال رہی لیکن صورتحال آج کس قدر تشویش ناک ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت ریلوے کے پاس کل 448 انجن ہیں جن میں سے 293 فعال اور 155 غیر فعال ہیں چین کے 62انجن کافی عرصہ سے زیر مرمت ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران 194 انجنوں کا اضافہ کیا گیا 174 کی مرمت اور دیکھ بھال کی گئی 20 انجنوں کو مرمت کے بعد ریلوے لائن سے جوڑ دیا گیا روزانہ کی بنیاد پر دستیاب انجنوں کی تعداد 180 تھی جو اب 293 تک پہنچ گئی ہے اگرچہ یہ نشو و نما حوصلہ افزا ہے لیکن ریلوے کی بحالی میں اس شعبے کو ابھی مزید توجہ کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ریلوے کا محکمہ 1960ء کی دہائی تک اچھا خاصا ترقی پذیر اور منافع بخش رہا لیکن بعد میں مسلسل عدم توجہی کا شکار ہوتا چلا گیا انجنوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے اتنی رہ گئی کہ اب بہت سے ریلوے سیکشن بند پڑے ہیں ان پر قائم ریلوے سٹیشنوں پرقبضہ گروپ براجمان ہیں، بیشتر سیکشنوں پر اب مال گاڑیاں نہیں چلتیں جس سے ریلوے کی آمدن کا بڑا حصہ بند ہو گیا ہے وزارت ریلوے نے 2014ء میں وژن 2025ء پروگرام تیار کیا تھا جس کا مقصد ریلوے کے ڈھانچے کو ترقی دینا ہے۔ اس منصوبے میں انجنوں کی استعداد اور رفتار میں اضافہ اور بروقت منزل پر پہنچنا اوّلین ترجیح ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل کا ٹائم فریم دسمبر 2017ء مقرر ہے دنیا کی تیز رفتار ترقی میں ریل کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے ۔اس لئے محکمہ ریلوے اور بالخصوص حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تا کہ ٹرینوں کے سفر اور مال برداری پر لوگوں کا پھر سے مکمل اعتماد بحال ہونےکے ساتھ ساتھ اس محکمے میں ملازمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آ سکیں۔

.
تازہ ترین