• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
20؍اپریل کی دوپہر پاناما مقدمے کا جو فیصلہ سنایا گیا، اس میں آئین اور قانون کے اہم نکات زیرِ بحث آئے اور ایک غیر ملکی ناول اور ڈرامے کے حوالے بھی دیے گئے۔ پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے اختلافی نوٹ دیتے ہوئے وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا جبکہ باقی تین جج صاحبان نے اپنے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ وزیراعظم کی نااہلی کے بارے میں جو دستاویزات اور دلائل ہمارے سامنے آئے ہیں، ان کی بنیاد پر ایک حتمی نتیجے تک پہنچنا دشوار تھا، اس لیے وہ نوازشریف اور ان کے صاحبزادوں حسین اور حسن سے تیرہ سوالات کے متعلق جوابات اور شہادتیں حاصل کرنے کے لیے ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم (جے آئی ٹی) کی تشکیل کا حکم دیتے ہیں جس میں ایف آئی اے، نیب، اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی کے علاوہ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے اعلیٰ افسران شامل ہوں گے۔ یہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی نگرانی میں کام کرے گی، ہر دو ہفتے بعد اسپیشل بنچ کو رپورٹ دے گی اور تفتیش دو ماہ کے اندر مکمل کر لے گی۔ اسپیشل بنچ کو عبوری یا حتمی رپورٹ کی بنیاد پر عدالت کو ریفرنس بھیجنے یا کوئی اور عدالتی حکم جاری کرنے کا اختیار ہو گا۔
اس عدالتی فیصلے کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ عدالت کے کمرے سے مدعی اور مدعا علیہ دونوں ’فتح‘ کا نشان بناتے اور خوشی کے شادیانے بجاتے باہر آئے۔ عدالتی تاریخ میں یہ منظر پہلی بار دیکھنے میں آیا، تاہم چھ سات گھنٹے گزرنے کے بعد جناب عمران خاں اور ان کے جاں نثاروں کو احساس ہونے لگا کہ وہ تو اپنا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اور جے آئی ٹی ایک نیا جال ثابت ہو سکتی ہے، چنانچہ انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ حکومت جج صاحبان پر اثرانداز ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک مسخرے نے یہ بے پر کی پھیلا دی کہ اعلان سے پہلے عدالتی فیصلے کی کاپی وزیراعظم تک پہنچ گئی تھی اور انہوں نے مریم نواز کے خلاف تمام ریمارکس حذف کر دیے۔ اگر ایسا ہوتا تو عدالتی فیصلے میں ان کی اپنی ذات کے بارے میں ’’ڈان‘‘ اور قطری شہزادے کے خط کے لئے ’’بوگس‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں سب سے پہلے وہ حذف کر دیئے جاتے۔ اسی کے ساتھ عمران خاں کی یہ گفتگو سامنے آئی کہ انہیں پاناما کیس سے الگ تھلگ رہنے کے لیے دس ارب روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔ ایسی غیر ذمہ دارانہ باتیں اور کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر تنقیدی الزامات سیاسی اخلاقیات کی پستی کی بدترین مثال محسوس ہوتی ہیں۔
میرے خیال میں عدلیہ کے خلاف عوام کے اندر بے اعتمادی پیدا کرنا ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے فاضل چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے بنی گالہ میں درختوں کی کٹائی کے ازخود نوٹس کے مقدمے کی سماعت کے دوران جناب عمران خاں کو ایک ذمہ دار سیاسی لیڈر کا کردار ادا کرنے کا احساس دلایا کہ عدالتی نظام عوام کے اعتماد کی قوت پر قائم رہتا ہے اور ہم سب کو اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔ میری سوچ کے مطابق آج ہم جس غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہیں، اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ عدالت کے فیصلے کا احترام کیا جائے اور جمہوری عمل کے تسلسل سے پُرامن انتقالِ اقتدار کی ضمانت دی جائے۔ یہ اسی طرح ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں اور حکومت سیاسی معاملات کو طاقت کے بجائے سیاسی مفاہمت اور پُرامن طریقوں سے حل کرنے کی پالیسی اپنائے۔میثاقِ جمہوریت سے سیاسی تناؤ میں حد درجہ کمی آئی تھی اور پُرامن انتقالِ اقتدار کی روایت قائم ہوئی تھی۔
اس وقت عمران خاں ہر حربے اور ہر جمہوری یا غیرجمہوری طریقے سے حکومت کو گرانا اور وزیراعظم کو ایوانِ اقتدار سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں مائنس ون فارمولے کے نتائج بھیانک نکلے ہیں۔ وجوہات جو بھی تھیں اور حالات جیسے بھی تھے، ایک شخص کے خلاف شدید محاذ آرائی نے بحران پر بحران پیدا کیے۔ ایوب خاں اور مسٹر بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک کے سارے مناظر ہماری آنکھوں میں محفوظ ہیں۔ اگر ایوب خاں اپنے آپ کو عقلِ کُل نہ سمجھتے اور عوام کے حقوق غصب نہ کرتے اور حکومت کو شخصی آمریت میں تبدیل نہ کر دیتے، تو ان کے خلاف نفرت اور بیزاری کا طوفان نہ اُمڈتا۔ جب طوفان اُٹھا، تو حزبِ اختلاف نے بھی شدید رویہ اختیار کیا اور ہمارے دشمن کو پاکستان کا اتحاد پارہ پارہ کرنے کا موقع مل گیا۔ یہی معاملہ مسٹر بھٹو کے ساتھ پیش آیا۔ وہ بھی اپنے آپ کو عقلِ کُل اور عوام کو ’ہلکا‘ سمجھتے تھے۔ جمہوری رویوں کو فروغ دینے کے بجائے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف بے دریغ طاقت استعمال کی، اپوزیشن جماعتیں متحد ہو گئیں اور محاذ آرائی کے نتیجے میں پوائنٹ آف نو ریٹرن آ گیا۔ نوازشریف ان دونوں حکمرانوں کے مقابلے میں بڑی خوبیوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ کی دلدل سے نکالا اور ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا ہے۔ وہ اور اُن کے صاحبزادے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لیے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے اور عدالت کا ہر فیصلہ تسلیم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اب ان کے فوری استعفے کا مطالبہ خدانخواستہ بہت زیادہ سیاسی افراتفری اور دشمن کی دخل اندازی کا راستہ ہموار کر سکتا ہے۔
پاناما کیس کے فیصلے میں دو جج صاحبان کے اختلافی نوٹ کی حیثیت قومی اسمبلی میں پاس ہونے والی قرارداد کی ہے جسے آپ زیادہ سے زیادہ سفارش کہہ سکتے ہیں۔ عدالت کا حکم جے آئی ٹی کی تشکیل پر مبنی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں جے آئی ٹی کو دباؤ میں رکھ کر اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ نے ماضی کے تجربات کی روشنی میں جے آئی ٹی کو ایک اعتبار اور وقار دینے کے لیے ایک اسپیشل بنچ کی تشکیل کا واضح عندیہ دیا ہے جو اس ٹیم کی نگرانی بھی کرے گا اور اس کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیتا رہے گا۔ سپریم کورٹ کی نگرانی کے علاوہ اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں گے جن کی مہارت، تجربہ اور غیر جانب داری بہت بڑا سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ ان کی بدولت مجوزہ جے آئی ٹی ماضی کی جے آئی ٹیز سے بڑی حد تک مختلف ہو گی، البتہ اس کی ہیئت ِ ترکیبی میں بعض سیاسی مضمرات بھی ہیں۔
ہمارے ہاں تشکیک کا مرض بڑی بڑی شخصیتوں کو بھی لاحق ہوتا جا رہا ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن جن کا شمار بہت اونچے وکیلوں اور دانش وروں میں ہوتا ہے، ان کا گمان یہ ہے کہ ان دنوں آئی ایس آئی بھی حکومت کے زیرِ اثر ہے، کیونکہ اس کے ایک افسر محترمہ مریم نواز کے قریبی رشتے دار ہیں۔ رشتہ داریاں تو سیاسی جماعتوں میں بھی ہیں اور سول بیورو کریسی میں بھی اور قومی سلامتی کے اداروں میں بھی، مگر وہ ان رشتے داریوں سے متاثر نہیں ہوتے اور اپنے فرائض پوری ذمہ داری اور دیانت داری سے ادا کرتے ہیں۔ بیرسٹر صاحب کی طرف سے آئی ایس آئی کے بارے میں اعتراض اُٹھانے پر فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے بے جا تنقید پر افسوس کا اظہار کیا۔ پچھلے دنوں کور کمانڈرز کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے جے آئی ٹی میں اپنا کردار پوری ذمہ داری اور غیر جانب داری سے ادا کریں گے۔ خوش قسمتی سے ہماری تاریخ کے اس نازک موڑ پر سول اور فوجی ادارے اس مسئلے پر ایک صفحے پر ہیں اور پاکستان کے جمہوری، سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے پوری طرح سرگرم ہیں۔ بس قوم کو یہ پختہ ارادہ کر لینا چاہیے کہ دستور سے ماورا کسی اقدام کی حمایت کرے گی نہ امن و امان کو تباہ کرنے والی کسی احتجاجی مہم میں حصہ لے گی۔ توقع ہے کہ دو ماہ کے اندر حتمی فیصلہ آجائے گا اور بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے، تب حقیقت افسانوں سے زیادہ خوش رنگ نظر آئے گی۔

.
تازہ ترین