• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
1977 کے انتخابات کے لئے انتخابی مہم جاری تھی بھٹو صاحب نے ناصر باغ میں تاریخی خطاب کیاتھا۔ بھٹو صاحب کے بعد کائرہ پر بھی ناصر باغ میں خوب رُوپ چڑھا ۔ ۔چشم بدور ۔۔۔ایک طویل عرصہ کے بعد کسی نے سیاسی شیروں کوان کچھار میں آکرللکارا ہے ۔ پیپلز پارٹی نے نون لیگ کو گلو بٹ اسٹائل سے ہینڈل کرنے کی شروعات کردی ہے ۔ناصر باغ میں خورشیدشاہ ،اعتزاز احسن اورخصوصاََ قمرالزمان کائرہ نے عوامی ،جذباتی اور پنجابی انداز میں تقریر کرتے ہوئے کہاکہ ۔۔۔تو ں تے کہندا سیں 6مہینے وچ لوڈشیڈنگ ختم نہ کراں تے میرانام بدل دینا ۔۔۔اوئے بھائی توں کیتا کی اے!!!تم تو کہتے تھے 6ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کردوں تو میرانام بدل دیجئے گا ۔۔اوئے بھائی تم نے کیا کیا ہے!!! پیپلزپارٹی کے دور میں خادم اعلیٰ نے سیاسی جلسوں میں عوامی اداکار علائوالدین کا tone & tempo اپنا لیاتھا۔زیر نظر اصطلاح فلموں اور ڈراموں کے کرداروں کی چال ڈھال اور لب ولہجہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ خادم اعلیٰ ہوبہو علائوالدین کے انداز میں عوامی جلسو ں میں پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے تھے۔سوئس بنکوں میں پڑا ہوا اربوں روپیہ بھی واپس لارہے تھے۔لگ بھگ 4سال گزر گئے نہ لوڈشیڈنگ ختم ہوئی نہ سوئس بنکوں کا پھیرا لگایاالبتہ پانامہ اسکینڈل کے ذریعے یہ انکشاف ضرورہوا کہ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘۔
پانامہ کیس کا فیصلہ جس میں وزیر اعظم کے حوالے سے کہاگیاکہ وہ ’’صادق اور امین‘‘ نہیں رہے اسکے بعد حکومتی جلسوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔وزیر اعظم نے کہاکہ ۔۔۔گیڈروں کاشیر سے مقابلہ نہیں ہوتا۔۔تمہارے کہنے پر استعفیٰ نہیں دوں گا ،جائو جاکر کرکٹ کھیلو۔۔۔ان خطابات میں اپنے اجتماعات کو جلسے اور مخالفین کے اکٹھ کو جلسیاںقراردیا گیا۔یعنی سیاسی اجتماعات کے سلسلے میں بھی Gender Discrimination(صنفی امتیاز)کا تصورموجود ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے کہاکہ نون لیگ کے جلسے میں خواتین دیکھیں کونے میں لگ کرکھڑی ہیں اور پی ٹی آئی کے جلسے میں خواتین کیاکررہی ہوتی ہیں؟خواتین کے بارے میں اس قسم کی درجہ بندی اور خیالات کو کہیں بھی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ۔جگنومحسن اور عاصمہ جہانگیر تو خواتین کومردوں کے برابرخیال کرتی ہیںمیری زوجہ محترمہ غزالہ یعقوب جو ’’18ویںگریڈ‘‘ کی ہائوس وائف ہیں وہ بھی وزیر اعظم کے اس بیان پر ناک منہ چڑھارہی ہیں ۔ حالانکہ بیگم صاحبہ کو میاں صاحب اور بھابی کلثوم کی جوڑی ماضی کی نامور فلمی جوڑی علی زیب سے کم دکھائی نہیں دیتی۔بھابی کلثوم کی سیاسی جدوجہد کوعمران خان نے سراہا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔واقعی اگر اس وقت بھابی کلثوم ، جنرل مشرف کی ’’بارہ اکتوبری مارکہ آمری حکومت‘‘ کے خلاف سیاسی جدوجہد نہ کرتیں، اور ایک کونے میں لگ کر بیٹھ جاتیں ، تو کیا میاں صاحب جیل سے رہا ہوپاتے اور وزارت عظمیٰ کی ہیٹرک مکمل کرتے؟ بھابی کلثوم کی سیاسی جدوجہدکی جہاں تعریف کی جارہی ہے وہاں مریم نوازکے سیاسی اور صحافتی عملیات پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ڈان لیکس کے حوالے سے متعددافراد کا کہنا ہے کہ یہ مس ہینڈل ہواہے۔ پانامہ کے بارے میں مریم نواز نے ٹوئٹ کیا کہ Panama is crapاس انگریزی کا نہایت محتاط ترجمہ بھی ( پانامہ گند ہے)کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ اس سے پہلے کہ مقامی میڈیا سے جواب آتا جرمن صحافی نے ٹوئٹ کیاکہ ( معافی چاہتاہوں لیکن آپ کو بتانا ہوگاکہ پانامہ کرپشن کی ہی کہانی ہے )
یہ جلسہ کیاہوتاہے اور جلسی کسے کہتے ہیں؟ ایک غیر محتاط اندازے کے مطابق جلسہ سرکاری اورجلسی غیرسرکاری ہوتی ہے ۔جلسہ کے انعقاد کے لئے سرکاری فنڈز،وسائل ،پٹواری ،تحصیلدار اورانتظامیہ ایک ساتھ متحرک ہوتے ہیں ۔ایک کامیاب جلسہ کرانے میں اس حلقہ کی مقامی قیادت کوبھی جیب ڈھیلی کرنا پڑتی ہے لیکن یہ عمل ثانوی حیثیت رکھتا ہے ۔جلسہ کاجثہ جتنا بڑھانا ہوفنڈز کا گڑاتنا ہی ڈالنا پڑتاہے۔ جلسوں کی رونق بڑھانے کے لئے سیاسی پارٹیاں مختلف حربے استعمال کرتی ہیں۔پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ جس میں بھٹو صاحب اورمحترمہ بے نظیر بھٹو شامل تھیں دونوں ہی اعلیٰ پائے کے مقرر تھے ۔دونوں باپ بیٹی یہ ادراک رکھتے تھے کہ یونائٹیڈ نیشن اورموچی گیٹ کے خطابات کے مندرجات اور احساسات میں کیافرق ہوناچاہیے۔ہمارے ہاں بعض قائدین انٹرنیشنل فورمز پر بھی ’’پرچیاں ‘‘ تھامے دکھائی دئیے ہیں۔اندرون ملک جلسوں میں بھی یہ قائدین بے وزن شاعری پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔پتہ نہیں ان کے ’’اتالیق‘‘ ان کی اصلاح بھی کرتے ہیں یانہیں؟مخالفین کے جلسوں یاجلسیوں میں آنے والے افراد کی تعداد کو غیر ضروری حد تک کم کرنا بھی ہماری سیاست کی پرانی روایت ہے۔10اپریل 1986کے دن جب محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ختم کرکے لاہور آئیں تو انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کہا تھاکہ لوگوں کی تعداد 10لاکھ سے کہیں زیادہ تھی۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں نوازشریف کا یک کالمی بیان مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے جس میں انہوں نے لوگوں کی تعداد مبلغ 50ہزار بیان کی تھی۔
12اپریل کو بے نظیر بھٹو میرے شہر گجرانوالہ آئی تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں وہ نظارہ دوبارہ نہیں دیکھا۔محترمہ بے نظیر جنہیں شام 7بجے جلسے سے خطاب کرنا تھا وہ سحری کے وقت شیرانوالہ باغ کے مرکزی گیٹ پر پہنچیں تو یوں لگا جیسے زمین اور آسمان آپس میں بغل گیر ہوگئے ہوں۔ہرطرف لوگ ہی لوگ تھے جو ایک ہی نعرہ لگارہے تھے ’’جیوے جیوے بھٹو جیوے‘‘۔ 1977کے انتخابات جس میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی جیت چکی تھی لیکن دھاندلی کے الزامات کے باعث دوبارہ الیکشنز کرانے کا اعلان کیاگیا۔ بھٹو صاحب کے خلاف 9سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کا نام دیاگیاتھا جس کے قائدین میں مولانا مودودی ،مفتی محمود، مولانا نورانی،اصغر خان اور چوہدری ظہورالہی سمیت دیگر شامل تھے۔ قومی اتحاد نے اس وقت الیکشنز میں دھاندلی کے ساتھ ساتھ اسلامی نفاذ کا نعرہ بلند کیاتھا جس کے نتیجے میں 11سال کے لئے جنرل ضیاالحق کامارشل لاآگیاتھا۔تقدیر کا ستم دیکھئے اس کے بعد ہمارے ہاں ہر انتخابات پر دھاندلی کا الزام بھی لگایاگیا اور آج تک اسلامی نظام بھی نافذنہیں ہوسکا ۔اسلام سے صرف ایمانداری مستعار کی گئی تاکہ صادق اورامین کی بحث جاری رہے ۔یہی وہ تاریخ کا سبق ہے جو پیپلز پارٹی نے تو شاید سیکھا ہے کہ جب آپ انتخابات پر دھاندلی کے الزامات عائد کرکے اس کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں یا پھر بائیکاٹ کرتے ہیں تو پھر نئے انتخابات نہیں ہوتے بلکہ ایک طویل مارشل لاآتاہے۔بالکل اس طرح جیسے آنجہانی شومین راج کپور کی فلم ’’بوبی ‘‘ میںڈمپل کپاڈیہ کے سامنے شیر آجاتاہے اور پھر وہی ہوتاہے جو شیر چاہتا ہے ۔ بھٹو صاحب نے ناصر باغ جسے گول باغ بھی کہاجاتاتھا وہاں ایک تقریر کرتے ہوئے ازراہِ تفنن کہاتھاکہ ۔۔۔یہ کہتے ہیں کہ میں پیتاہوں۔۔۔ہاں جب تھک جاتاہوں تو تھوڑی سی پی لیتا ہوں ۔۔۔پیتاہوں لیکن غریب کا خون نہیں پیتا۔۔۔ جنرل ضیاالحق نے سازش کے ذریعے بھٹو صاحب کا عدالتی قتل کیاجسے تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی لیکن لاکھ کوشش کے باوجودوہ بھٹو صاحب کے خلاف کوئی ’’پانامہ ‘‘ ثابت نہ کرسکا۔۔۔کاش ! ہم پینے اور پانامہ میں فرق کو سمجھ سکیں!!!



.
تازہ ترین