• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آجکل مغربی ممالک شام پر قیامت برپا کئے ہوئے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ امریکہ، فرانس اور انگلستان اسرائیل کو ایسا تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ چاہئے کچھ بھی کرے عرب کبھی اس کے خلاف کوئی اقدام نہ اُٹھا سکیں۔ ہیلری کلنٹن نے اپنی ایک میل میں کھل کر لکھا ہے کہ جب شام ختم ہوجائے گا تو پھر اسرائیل کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا۔ شامیوںکے ان تکلیف دہ حالات میں لاتعداد پاکستانی شامیوں کی دل کھول کر مدد کررہے ہیں۔ اس میں ہمارے سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے سربراہ، برادرم مولانا محمد بشیر قادری اس وقت ترکی اور شام کی سرحد پر موجود ہیں اور کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات شامی پناہ گزینوں کوفراہم کررہے ہیں۔ جزاک اللہ خیر!
ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اللہ رب العزت مسلمانوں سے سخت ناراض ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان عتاب میں ہیں۔ اس میں ہمارا ہی قصور ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات (قرآن) کو بالکل نظر انداز کردیا ہے۔ قتل و غارت گری کو قومی کھیل سمجھ لیا ہے۔ ہم تقریباً 100 سال سے اس عتاب میں ہیں۔ ہمارا زوال و مشکلات پہلی جنگ عظیم سے شروع ہوئیں۔ عربوں نے غدّاری کی اور کافروں سے مل کر ترکوں کے خلاف بغاوت کی اور ترکوں کا قتل عام کیا۔ اس غدّاری کے نتیجے میں عرب ممالک کوہزیمت اٹھانا پڑی اور وہ آج تک اس کے شکار ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں شام ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اسرائیل بن گیا۔ لبنان بن گیا۔ فرانس و انگلستان نے ان ممالک کا حشر نشر کردیا۔ جب شامی باشندوں نے مزاحمت کی تو فرانسیسیوں نے سینیگال سے فوجی لاکر شامیوں پر سخت مظالم کئے اور ان کو کچل کر رکھ دیا۔ کمزوری، عیاشی نے اور کرپشن نے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کو اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور یہ آپس کی جنگیں اور سب کچھ، مغربی ممالک کے پیارے بننے کی وجہ سے ہوا ہے۔
شام بہت ہی خوبصورت ملک ہے، ہرا بھرا، نہریں، ہر طرح کے اعلیٰ پھل، خوبصورت عمارتیں و محلات۔ ہمارے پیارے رسول ؐ کے ابتدائی دور میں مکہ کے عرب شام جایا کرتے تھے اور تجارت کرتے تھے اس طرح وہ شام کی خوبصورتی و زرخیزی سے پوری طرح واقف تھے۔
شام کی تاریخ تقریباً 8لاکھ سال پُرانی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے بہت سے نوادرات تلاش کرکے یہ راز معلوم کیا تھا۔ یہ علاقہ رومیوں کے قبضہ میں برسوں رہا۔ اس وقت رومیوں، عیسائیوں کی بڑی مملکت تھی جس میں تمام عرب ممالک شامل تھے۔ شام کی تہذیب سب سے پُرانی ہے۔ اس ملک پر مختلف قوموں اور مختلف ممالک کا قبضہ رہا جس کی تفصیل تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے اور اس علاقے کو مختلف ناموں سے منصوب کیا گیا۔ آخرکار 539 قبل مسیح میں ایرانیوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب یونانی بادشاہ الیگزینڈر نے اس کو فتح کرلیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوگیا جب 634-640 ء میں مسلمانوں (عربوں نے) فتح کرلیا۔ اور یہ فتح حضرت خالد بن ولیدؓ نے کی تھی۔ اس وقت عیسائیو ں کی فوج میں ایک لاکھ پچیس ہزار فوجی تھے جبکہ مسلمانوں کی تعداد بمشکل تیس ہزار تھی۔ جب جنگ چھڑی تو پہلے دن ہی عیسائیوں (Byzantine) کے پیر اُکھڑ گئے۔ حضرت خالدؓ بن ولیدجیسا بہادر اور ماہر جنگجو نہ پہلے پیدا ہوا تھا اور نہ بعد میں۔ تھوڑا مقابلہ آپ شہاب الدین غوریؒ سے کرسکتے ہیں کہ اُنھوں نے بھی ترائن کے میدان میں تقریباً تیس ہزار مجاہدوں سے سوا لاکھ مرہٹوں، راجپوتوں کو شکست دی تھی اور سو سے زیادہ راجہ، مہاراجہ قتل ہوئے تھے۔ ان سب کا سردار اجمیر کا راجہ پرتھوی راج چوہان تھا اور شہاب الدین غوری نے قطب الدین ایبک کو دہلی میں بٹھا کر اسلامی حکومت کی بنیاد ڈال دی۔
دیکھئے عیسائیوں کے خلاف حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ جنگ حُمس (Homs) نامی شہر کے پاس جیتی تھی۔ میں دو مرتبہ شام گیا ہوں۔ ایک مرتبہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ہم نے وہاں جہاز تبدیل کیا تھا اور ایک پورا دن مل گیا تھا جس میں ہم نے مشہور مسجد بنو اُمیہ، سلطان صلاح الدین ایوبی کا مزار، ڈھکے ہوئے بازار (دمشق کے وسط میں) دیکھے تھے۔ دوسری بار ہم سرکاری دورے پر گئے تھے اور ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ اس وقت ہمارے پیارے دوست ڈاکٹر افضل اکبر خان وہاں سفیر تھے۔ ہمیں وہاں انھوں نے اور وزیر اعلیٰ تعلیم ڈاکٹر صالحہ سنکرنے خوش آمدید کہاتھا ۔ اس وقت ہمیں مسجد بنو اُمیہ کے ’’سجادہ نشین‘‘ نے دعوت دی تھی۔ ہم نے دمشق یونیورسٹی کی بھی سیر کی تھی۔ اس کے ریکٹر سے میں نے خوب گپ شپ لگائی تھی کہ وہ بھی برلن کے تعلیم یافتہ تھے اور جرمن بول سکتے تھے۔ اس دورے میں ہم نے دیکھا کہ صدر حافظ الاسد کی تصاویر، بڑی، چھوٹی، ہر بلڈنگ ، دفتر، تعلیمی اداروں میں لگی ہوئی تھیں۔ اُنھوں نے ہمیں ایک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی دکھایا جس کے سربراہ سابقہ ایئر چیف تھے۔ میں گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا وہ کھل کر بات نہیں کر رہے تھے اور مجھے بھی اشارہ کررہے تھے کہ کوئی بات نہ کروں۔ خوفزدہ تھے۔ ہم اپنے سفیر کے ساتھ حمس (Homs) بھی گئے وہاں بھی ایک یونیورسٹی زیر تعمیر تھی۔ اور سب سے اچھی یادگار حضرت خالد بن ولیدؓ کا مزار تھا۔ یہ چاندی سے بنایا گیا تھا اور اس کو ترکوںنے اپنے دور حکومت میں تعمیر کرایا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت خوبصورت تھا ۔
وسط ساتویں صدی میں بنو اُمیہ نے مدینہ سے دارالحکومت دمشق میں منتقل کردیا اور اس طرح نہ صرف دمشق کی بلکہ شام کی اہمیت میں بہت اضافہ ہوگیا۔ اس وقت اسلامی مملکت اسپین سے ہندوستان تک، وسط ایشیا کا بڑا علاقہ اس میں شامل تھا۔ خاص طور پر عبدالمالک اور اَلولید خلفاء نے شام میں اعلیٰ مَساجد، محلات و باغات کی تعمیر کی۔ اس زمانے میں مذہبی رواداری عروج پر تھی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں عباسی حکمرانوں نے بنو اُمیہ کو شکست دے کر حکومت پر قبضہ کرلیا اور دارالحکومت دمشق سے بغداد منتقل کردیا اور اس طرح بغداد (عراق) نے اس دور میں بہت ترقی کی اور لوگ آج بھی خلیفہ ہارون الرشید اور خلیفہ مامون کو یاد کرتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانسیسی سفارتکار Francois Georges-Picot اور برٹش سفارتکار Mark Sykes نے خفیہ معاہدہ (1916) کرلیا اور اکتوبر 1918 میں انگریزی فوج شام میں گھس گئی اور دمشق اور اَلپو(Aleppo) پر قبضہ کرلیا۔1919 میں چھوٹی مدت کے لئے حکومت شام کا قیام آیا اور شریف مکہ کا بیٹا امیر فیصل حکمراں بنا دیا گیا۔ لیکن کچھ عرصےکے بعد ہی اس کی عرب افواج اور فرانسیسی افواج نے دخل اندازی کرکے شام پر قبضہ کرلیا اور امیر فیصل بھاگ کر عراق چلا گیا۔ اُسی سال اَمیر فیصل کی حکومت کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا(San Remo Conference) ۔ اور شام اور لبنان پر فرانسیسیوں نے قبضہ کرلیا اور فلسطین پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا۔ انگریزوں نے دھوکے سے فلسطین پر قبضہ کیا کہ وہ وہاں یہودیوں کو آنے اور رہائش پذیر ہونے میں مدد دینا چاہتے تھے، ان کا وزیر خارجہ بالفور یہودی تھا۔ 1936 میں فرانسیسی حکومت نے شام کو آزادی دیدی۔ جمال ناصر نے مصر پر قبضہ کرنے کے بعد اسرائیل کے خلاف جارحانہ اقدامات کرنا شروع کئے اور اس کے نتیجے میں انگریزوں اور فرانسیسی فوج نے سوئز کنال پر قبضہ کرلیا اور پھر روس کی دھمکی کی وجہ سے اپنے فوجی واپس بلالئے۔ کہانی طویل ہے مگر اس وقت جس طرح امریکہ، انگلستان اور فرانس نے شام کو عراق کی طرح تباہ کیا ہے وہ نہایت قابل مذمت ہے۔ شام کو کھنڈرات میں بدل دیا۔ اس وقت ہمارا اعلیٰ فلاحی ادارہ انٹرنیشنل سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ اور اس کے سربراہ برادرم محمد بشیر شامیوں کی کھلے دل سے مدد کررہے ہیں۔ اگلے کالم میں انشاء اللہ اس پر تفصیلی تبصرہ کروں گا۔

.
تازہ ترین