• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہر سال کی طرح اک قومی بجٹ میڈیا کی غالب جگہ اور وقت چاٹتا ہوا پھر آیا ہے ۔ابھی چار پانچ روز یہ ہی موضوع ٹی وی چینلز اور اخبارات پر چھایا رہے گا۔بجٹ کے تعریفی اور تنقیدی پہلوئوں پر عوام کی سمجھ سے باہر ایسا ابلاغ ہو گا کہ حکومت اس کے حق میں کوئی رائے عامہ بنا پائے گی نہ ہی اپوزیشن کی تنقید، حالانکہ بجٹ کا گہرا تعلق عوام سے ہوتا ہے اور اس پر ان کے کتنے ہی مفادات کے حوالے سے رائے عامہ شدت سے مطلوب ہوتی ہے ۔ستم یہ ہے کہ میڈیا میں بجٹ کی رپورٹنگ مکمل روایتی انداز میں ہوتی ہے، جو بجٹ پیش کرنے والی حکومت کے لئے موج ہی موج ہے،ہر حکومت ہرسال میڈیا کی اس محدود سکت کا موج میلہ لوٹتی ہے کہ وہ اپنے پیش کردہ Gimmiky (شعبدے بازیوں سے پُر)بجٹ کو اپنے مخصوص حکومت مخالف مزاج کے مطابق رپورٹ کر ہی نہیں سکتا ۔ٹریکی بجٹ تمام تر شعبدے بازیوں کے باوجود منظور ہو جاتا ہے اور حکومتی بینچ سے واہ واہ اور اپوزیشن کی تنقید بھی بھگت جاتی ہے ۔کچھ لو پروفائل میں میڈیا اپنے ہی ایجنڈے کے طور پر کڑوا کسیلا بھی بے نقاب کر دے، وہ بھی جلد ہضم ہو ہی جاتا ہے۔
برادران صحافت، برا نہ مانیں، غور فرمائیں۔ ان کی رپورٹنگ اور پوسٹ بجٹ کوریج اس سے آگے نہیں جاتی کہ وزیر خزانہ نے جو پیش کر دیا اسے من وعن ممکنہ حد تک کوریج دے دی ۔اضافہ فقط اتنا کہ اپوزیشن کا بجٹ پر ردعمل کچھ اور اسٹیک ہولڈرکا، اکا دکا چلتے پھرتے کمزور مالی حالت کے صارفین سے بھی سوال کہ آپ نے بجٹ کو کیسا سمجھا ؟جو بچارے کچھ بھی نہیں سمجھتے اور اس سے زیادہ جواب دے نہیں پاتے کہ ’’ہر بجٹ ہی مہنگائی لاتا ہے جو پہلے بہت ہے تنخواہ کا بڑا حصہ بلوں میں چلا جاتا ہے ، ہم کیا کریں کس کے پائے جائیں ‘‘اس اوسط جواب پر حکومت کی طرح میڈیا بھی مطمئن ہو جاتا ہے کہ چلو عوام کو بھی بھگتا دیا۔اب جو بجٹ کے فالو اپ کے لئے پوسٹ بجٹ کوریج ہو گی اس کے لئے ہر دو جانب کے بڑے بڑے ماہرین معیشت ٹی وی ٹاک شوز میں انگیج کئے جائیں گے۔وہ بھی اپنا کام مکمل ٹیکنیکل انداز میں بخوبی نمٹائیں گے ۔حکومت مخالفین کی طرف سے تنقید ہی تنقید اور وفادار ہمنوائوں کی طرف سے اسے اتنا تاریخی اور عوام دوست قرار دیا جائے گا کہ بڑے بڑوں میں دھڑکا پیدا ہو سکتا ہے کہ براوقت آنے پر کسی اور کو وزیر اعظم بنانا پر گیا تو بجٹ کے تاریخی ، تعریفی پہلوئوں کو سمجھنے والے کہیں ڈار صاحب کو ہی سال بھر کی وزارت عظمیٰ کا بہتر امیدوار نہ سمجھنے لگیں۔
امر واقعہ ہے اور روایت ہے کہ ہر حکومت بجٹ کی منظوری تک ایک انجانی سی ٹینشن میں مبتلا ہوتی ہے کہ بالعموم بجٹ اتنے ٹریکی ہوتے ہیں کہ یہ گمکس سے پر ہوتے ہیں ۔ دھڑکا یہ لگا ہوتا ہے کہ کسی اصلی سیانے نے بجٹ کی اصلیت عوام کو سمجھا دی تو ’’گورنمنٹ ان ٹربل ‘‘ کا اسکرپٹ خود بخود تیار ہو جائے گا،لیکن اب حکومتوں کی چاندنی یہ ہے کہ اس کے امکانات، میڈیا ، اپوزیشن اور بجٹ ماہرین کی طرف سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کیا پوری قوم اور امت بھی روایات میں کھوئے جا رہی ہے اور اسٹیٹس کو کی گھڑی روایات پروفیشنلزم، فریضے اور مہارت سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتی جا رہی ہیں کہ پورا ملک نمک کی کان بنایا جا رہا ہے ، سو برادران صحافت، اپوزیشن اور ماہرین پر بھی کوئی تنقید زیادہ نہیں بنتی ۔وگرنہ بجٹ خصوصاً ترقی پذیر جمہوریتوں میں (جیسے پاکستان اوربھارت )بجٹ رپورٹنگ پر تو کوئی قدغن نہیں یوں یہ ایک بڑا پروفیشنل چیلنج ہے اس کی عوام کے قابل ذکر حصے کو سمجھ آنے والی ExplainatoryReportingاور عوامی مفاد کے حوالے سے جن پہلوئوں کے کھول کھول کر تجزیے اور بجٹ کی شعبدے بازیوں کی آشکاری عوام الناس کی خدمت اور گورننس کی سمت درست کرنے کا بڑا ذریعہ بن سکتی ہے ۔نہیں تو روایتی حکومتوں کی موجیں ہی موجیں ۔واضح رہے کہ امریکہ اور یورپ جہاں کا آزاد میڈیا حکومتوں اور طاقت ور طبقات سے متاثر ہونے ( کہ تحقیق کے نتائج اس کی تصدیق کرتے ہیں)کے باوجود سوسائٹی میں اپنا اعتبار بچانے اور بڑھانے کے لئے عوامی مفاد اور دلچسپی کے فنی موضوعات کی رپورٹنگ میں وضاحتی رپورٹنگ کو تحقیقی رپورٹنگ جتنی ہی اہمیت دیتا ہے جس کے بینی فشری پیپل ایٹ لارج ہوتے ہیں اور حکومتیں بہتر گورننس پر چوکس کہ کوئی بگاڑ نہ آئے ۔
18-2017کا بجٹ چونکہ الیکشن ایئر کا بجٹ ہے اس لئے توقع کی جا رہی تھی کہ کوئی بڑی نہ سہی چھوٹی سی ہی فروٹ باسکٹ عوام کو پیش کی جائے گی تنخواہوں اور پنشنروں کی تنخواہوں میں اضافہ 10فیصد سے زیادہ نہ بڑھ سکا، ملنا تو کیا تھا اوسط درجے کے تنخواہ داروں پر سپر ٹیکس کا بم چلا دیا۔ تاہم فوجی بھائیوں کو جو 10فیصد سپیشل تنخواہ ان کی دہشت گردی کے خلاف عظیم قربانیوں ،کراچی میں امن عامہ کی بحالی اور کامیاب آپریشن ضرب عضب اور جاری آپریشن ردالفساد کی کامیابیوں کے حوالے سے دیا گیا وہ اس سے بھی زیادہ کے مستحق تھے حکومت کا یہ اقدام بالکل درست ہے تاہم اس میں پولیس نفری کے اس حصے کو ضرور شامل کرنا چاہئے تھا جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتہائی مشکل حالات میں بڑی جانی قربانیوں کے ساتھ سرگرم رہی اور ہے ۔
مجھے بجٹ کی دو مدوں نے بہت چھیڑا ہے جن کی وضاحتی اور تحقیقی رپورٹنگ شدت سے مطلوب ہے اور اس کا کھل کھلا کر تجربہ ہونا چاہئے اگر برادران صحافت کی سمجھ میں آ جائے ۔ایک ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ خاکسار تو اس مد کے حوالے سے پہلے بھی نشاندہی کرتا رہا ہے کہ یہ ترقی پذیر ممالک میں سماجی اور سماجی ،اقتصادی ترقی کی جدید اپروچ کے مخالف ڈلیوری سسٹم کی اپروچ ہے جو 50اور 60کے عشرے میں بین الاقوامی ترقیاتی اداروں (خصوصاًاقوام متحدہ ، پولیس ریڈ، سیڈا ، جائیکا وغیرہ) نے اختیار کی اس کے تحت ترقی پذیر دنیا کی مفلوک ترین آبادیوں میں خوراک، ادویات اور بنیادی اشیاء کی مفت تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا اس کے منفی نتائج کے بعد CapacityBuilding(سکت بڑھانے) کی ترقیاتی اپروچ آئی اور غربت و مفلسی ختم کرنے میں اس کے نتائج حوصلہ افزا آئے ۔یہی اپروچ پھر ترقی ہو جاریہ (SustainableDevelopment) سے جڑ گئی آج اسی کا چرچہ ہے ۔ غضب خدا کا دس سال سے بین الاقوامی بھیک لیکر یہ پروگرام بے نظیر جیسی ہائی کیپسٹی سیاسی قیادت کے نام پر غربت کو برقرار رکھنے اور قوم کو بھکاری ثابت کرنے کے لئے چلایا جا رہا ہے ۔جو121ارب کا ہے یہ ترقیاتی بجٹ کا ایک بڑا فیصدہے جس میں گھپلوں، آڈٹ کے مسائل اور 40سے50فیصد تک کرپشن کی خبریں آتی رہی ہیں اور عالمی ویب سائٹ پر بھی یہ ہی ریکارڈ موجود ہے اس کا تجزیہ اسکی خبریں، اس کی مانیٹرنگ ہونی چاہئے باوثوق پارٹیوں کے لئے غربا کے ووٹ حاصل کرنے ، کرپشن کے لئے یہ ناگزیر ہو چکا ہے؟ دوسری مد 20ارب لپ ٹاپس کی مفت تقسیم کے حوالے سے ہے اڑھائی کروڑ بچوں کے سکول سے باہر ہونے کی صورت میں اس کا قطعی کوئی جواز نہیں یہ فیصلہ عوامی نہیں اس کے کیا نتائج آتے ہیں اس کی شفافیت کے پہلوئوں پر کبھی کوئی خبر نہیں آئی یہ بھی متروک ڈلیوری سسٹم کی ایسی مثال ہے جس کے جواز کو واضح نہیں کیا گیا۔ یہ بھی متنازع مشکوک اور بنیادی ترجیحات سے متصادم ہے۔



.
تازہ ترین