• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی:امن کا گہوارہ، معاشی سرگرمیوں کا مرکز خصوصی مراسلہ…محمد ناصر

سندھ خصوصاً کراچی کو امن کا گہوارہ بنانے اور یہاں روشنیوں کی بحالی اور معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے ان دنوں کافی شخصیات اور متعدد ادارے سرگرم ہیں، سب ہی کراچی کو ایک بے مثال شہر بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔کراچی تجارتی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت مشہور تھا، اب اس شہر کی تجارتی سرگرمیاں بحال کرنا بہت ضروری ہے، گزشتہ 20-25برس میں جو تباہی اس شہر میں ہوئی ہے وہ ناقابل بیان ہے ۔ جب تک یہ شہر تجارتی سرگرمیوں میں عروج نہیں پائے گا تو ظاہر ہے ملک کو تجارتی لحاظ سے لیڈ نہیں کر پائے گا ان خیالات کا اظہار گورنر سندھ جناب محمد زبیر صاحب نے کیا وہ چاہتے ہیں کہ کراچی کو ایک نارمل شہر بنائوں جہاں تجارتی، نارمل اور کلچرل سرگرمیاں ہوں۔ یہ ایسا شہر تھا جہاں مختلف کلچر مختلف مذاہب کے لوگ پر امن طریقے سے رہتے تھے،یہ دوبارہ روشنیوں کا شہر بن جائے ۔ قائد اعظم کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا وہ بھی ایک خوشحال، پر امن اور ترقی کرتا شہر دیکھنا چاہتے تھے جس کا وہ اپنی تقاریر میں کئی بار اظہار بھی کرتے تھے۔ سب سے اہم اسٹیک ہولڈر عوام ہیں، اب کچرا کون اُٹھائے گا یا پانی کا انتظام کون چلائے گا یہ اِس پر منحصر ہے کہ سب سے تیزی کے ساتھ یہ کام کون کرسکتا ہے۔ وفاقی حکومت کرسکتی ہے، صوبائی حکومت کرسکتی ہے یا لوکل گورنمنٹ؟ جذبہ یہ ہونا چاہئے کہ اگر لوکل گورنمنٹ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں کام کرسکتی ہے تو اُسے ہی کرنا چاہئے۔ آج اگر آپ کسی باہر رہنے والے سے کراچی کے بارے میں پوچھیں تو اس کے ذہن میں سب پہلے ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، آپریشن، چائنا کٹنگ یہی سب آئے گا اس کے علاوہ اس نے اس شہر میں عجیب عجیب ناموں سے منسوب لوگوں کے نام بھی سن رکھے ہیں۔ اب آپ اس شہر کو واپس روشنیوں کا شہر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دوبارہ سے یہاں سرگرمیاں بحال کرنا ہوں گی۔ میرے خیال میں جتنی اہم سرگرمیاں میڈیا کے ذریعے اس شہر سے کور ہوتی ہیں اور کسی جگہ نہیں ہوتیں۔سب سے پہلا اور بڑا چیلنج اس شہر کو پر امن بنانا تھا۔پہلے تو یہاں ایک دِن کیلئے کوئی غیر ملکی بھی نہیں آتا تھا جبکہ اب 50فیصد غیر ملکی کمپنیاں ایسی ہیں جو کراچی شہر میں سرمایہ کاری کا سوچ رہی ہیں۔ اور اس کام کیلئے آپ کو بیٹھ کر انتظار نہیں کرنا پڑتا بلکہ خود جاکر اپنے شہر کی مارکیٹنگ کرنا پڑتی ہے۔ اگر آپ ایک بہترین پروڈکٹ بنا کر گھر میں لیکر بیٹھے رہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا آپ کو چاہئے کہ آپ اُسے ایڈورٹائز کریں تو ہم پوری دُنیا میں کراچی شہر کا اچھا تاثر پھیلانے کا کام کررہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہمیں پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے تو پھر اِن چیزوں کو اپنے اندر سے نکالنا ہوگا۔ دیکھیں! جب تک یہاں بڑا بزنس مین نہیں آئے گا یہاں سرمایہ کاری نہیں ہوگی، سرمایہ کاری نہیں ہوگی تو ملازمتیں نہیں ملیں گی۔ ملازمتیں نہیں ہوں گی تو ٹیکس جمع نہیں ہوگا۔ ٹیکس نہیں ہوگا تو عوام خوشحال کیسے ہوں گے؟ یہاں بزنس ہوگا تو عوام کو فائدہ ہوگا۔ابھی ایک رپورٹ آئی تھی معلوم نہیں کہ سندھ میں ایجوکیشن اور ہیلتھ سیکٹر میں 390 پروجیکٹس تھے جن کیلئے بجٹ رکھا گیا تھا مگر 270 میں زیرو اسٹینڈنگ ہے۔ اب میں یہی سوچ رہا تھا کہ اتنے لوگ نجی سیکٹرز میں کام کررہے ہیں، اپنا وقت دے رہے ہیں، پیسہ لگا رہے ہیں، محنت کررہے ہیں، میں اگر اِن کی جگہ ہوں تو سب کچھ اُنہیں دے دوں کہ آپ لوگ خرچ کریں، کیونکہ ایک چیز مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ ہر اچھا پروجیکٹ بنانے میں حکومت کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ پیسہ خرچ کریں گے۔ اگر آپ اپنی انتخابی مہم کے دوران، چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی، صرف دوسروں پر الزام تراشی کریں گے تو پھر عوام کا ذہن اُلجھن کا شکار ہو جائے گا کہ یہ دوسروں کی برائیاں کررہا ہے ، اپنا تو کچھ نہیں بتا رہا لہٰذا میں اِسے ووٹ کیوں دوں، میرا کیا فائدہ ہوگا؟ آپ دوسروں کی غلطیاں چھوڑ کر اپنی مثبت سوچ عوام تک پہنچائیں، اُنہیں بتائیں کہ میں کیا کروں گا، اگر آپ مجھے ووٹ دیں گے تو آپ کا کس طرح بھلا ہوگا۔ اور تحریک انصاف نے سب سے بڑی غلطی یہی کی تھی کہ وہ آخر تک الزام تراشی کرتے رہے۔ گورنر کو وہ کردار ادا کرنا چاہئے جس میں وہ سیاست نہ کرے۔ اب جب آپ کسی ایک سیاسی جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں تو کسی دوسری سیاسی جماعت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے، یعنی کسی مخصوص جماعت کیلئے آپ نے فنڈنگ کی، کسی کیلئے جلسوں کا انتظام کردیا۔ دیکھیں! فروری میں، میں گورنر بنا اور اُس دِن سے اب تک آپ میرے تمام انٹرویوز دیکھ لیں، میں نے کہا ہے کہ مراد علی شاہ زبردست آدمی ہے۔ وہ بہت پڑھے لکھے ہیں، بہترین شخصیت ہیں، کافی محنت کررہے ہیں، اگر میں یہی چیز شہبازشریف کیلئے کہتا ہوں تو کہا جاتا ہے آپ سیاست کررہے ہیں۔ اگر آپ سی پیک کی تاریخ دیکھیں تو چائنا پالیسی کی ابتدا ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب پاکستان سیٹو اور سینٹو کا حصہ تھا اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہم چین کی طرف جائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس دور میں جو دوستی شروع کی تھی اس کا فائدہ ہم آج حاصل کررہے ہیں، اُس وقت کسی نے کیوں اعتراض نہیں کیا؟ اس وقت کراچی میں کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جس کی جڑیں بہت زیادہ مضبوط ہوں، ایک وقت میں ایم کیو ایم کی جڑیں بہت مضبوط تھیں لیکن فی الوقت مجھے نہیں معلوم کہ اُن کا کونسا دھڑا زیادہ مقبول ہے۔انکا کہنا تھاکہ میں نے اپنا پروٹوکول کم کرنے کی ہدایت کردی ہے۔



.
تازہ ترین