• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مرزا غالب اگر CSPہوتے تو بخدا غالب نہ رہتے، مغلوب کہلاتے۔ یوں تو غالب کی شہرہ آفاق انا پرستی کی وجہ سے ان کو سول سروس جیسی جی حضوری والی نوکری میں متصور کرنا قدرے مشکل ہے مگر ان کی زندگی کی کچھ جہتیں ایسی ہیں جو ایک سی ایس پی کی زندگی سے کافی مماثلت رکھتی ہیں۔ مثلاً تنگ دستی، قرض کا بوجھ، ذاتی مکان کے نہ ہونے کے باعث عمر کا بیشتر حصہ کرائے کے مکان میں دھکے کھاتے گزرنا اور خاص کر پنشن کے حصول میں دقت جیسے مسائل جو کہ ماسواء مشتاق رئیسانی جیسی Exceptionsکے قریب قریب سبھی بیوروکریٹس کو درپیش ہے۔ سو چشم تصور سے دیکھتے ہیں کہ ان پہ جہان خراب میں کیا بیتتی۔ کسی بھی سی ایس ایس Aspirantکی طرح غالب جب بھی آپشنلز کے انتخاب اور انٹرویو جیسے روح فرسا مراحل سے گزرنے کے بعد جب ایک دن کامیابی کی نوید پاتے تو خوشی سے جھوم اٹھتے مگر جلد ہی ایلوکیشن اسٹیج پر خواب کسی عذاب میں بدل جاتے کہ ؎
کھلتا کسی پہ کیوں میری ایلوکیشن کا معاملہ
آپشنلز کے انتخاب نے رسواء کیا مجھے
بہرکیف یہ بات تو یقینی ہے کہ غالب جس بھی گروپ میں ایلوکیٹ ہوتے وہ اپنی حرکات و سکنات اور شاعرانہ مزاج کی بدولت ساری عمر کھڈے لائن پوسٹنگز ہی لے پاتے بلکہ ہمارے ایک PASکے بیچ میٹ نے (نام تو نہیں البتہ گروپ ضرور بتانے کی شرط پر) بتایا کہ غالب نہ صرف تمام عمر او ایس ڈی رہتے بلکہ اپنے اس مشہور شعر میں کچھ یوں ترمیم بھی کرتے؎
مفلسی و خرکاری، افسری و منہ ماری
ہم نے سول سروس کو ذلت آزما پایا
خیر ایک بار سروس جوائن کر لیں اور سرکاری نمک منہ لگ جانے کے بعد اس کو حلال کرنے کے لئے اول اول تو غالب بھی اپنے طور اطوار میں کچھ تبدیلی لاتے تاکہ کچھ بھی Unbecoming Of An Officerنہ رہے ویسے بھی
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے جب کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں
اس زمانے کے طور طرائق کے مطابق غالب کی بھی کم عمری میں ہی شادی ہو گئی تھی ؎
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
گویا کامن ٹریننگ جوائن کرتے وقت غالب ایک شادی شدہ مرد ہوتے اپنی اس بدقسمتی پر غالب یقیناً زار زار روتے اور ہائے ہائے کرتے اور جب جب پری وشوں اور ماہ رخوں سے مڈ بھیڑ ہوتی تو کف افسوس ملتے اپنی والدہ سے دل ہی دل میں گلہ ضرور کرتے کہ ؎
لازم تھا کہ دیکھو میرا ’رشتہ‘ کوئی دن اور
ان کے مالی حالات انہیں اس معاملہ قلب و جاں میں سیکنڈ اٹیمپٹ کی اجازت تو نہ دیتے مگر یار لوگوں کا خیال ہے کہ اگر غالب ڈبل سیلری والے گروپس میں ہوتے تو شائد یہ کچھ ایسا بعید نہ تھا کہ ان گروپس میں ایلوکیٹ ہی زیادہ تر انہی کو کیا جاتا ہے جو حسن پرست اور شاعرانہ مزاج واقعہ ہوتے ہیں اور پھر سرکاری مالی معاونت بھی سونے پہ سہاگہ کا کام دیتی ہے۔ ٹریننگ کی رنگینیوں اور رعنائیوں کے ہنی مون پیریڈ سے محظوظ ہونے کے بعد غالب جب سروس کی عملی چٹیل اور سفاک دنیا میں قدم رکھتے تو جلد ہی گردش مدام سے گھبرا جاتے؎
دیکھیں کیا گزرے ہے پروبیشنر پہ افسر ہونے تک
افسر شاہی کی بو قلمونیاں، ٹرانسفر پوسٹنگز، جی حضوریاں، لا ابالیاں، امتحانات و ٹریننگ کا لامتناہی سلسلہ، قلیل آمدن، ثقیل Portfoliosاور ترقی و تنزلی جیسے گوناگوں مسائل کی وجہ سے تو اول اول نوکری سے ان کا جی بھی اچاٹ ہو جاتا۔ سرکاری زبان پر عبور رکھنے کے باوجود ان پر جلد ہی ایک ’درباری‘ زبان کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوتا جس کے بولنے والا اپنی شعبدہ بازی اور مومی گردن کی بدولت کامیاب افسر قرار پاتا۔ اپنی شہرہ عام انانیت کے باعث درباری زبان سے متنفر غالب البتہ روایتی سرکاری Jargonمیں خوب مہارت رکھتے۔ اپنی شاعری پہ ’چیستان‘ اور ’ناقابل فہم‘ کا الزام سہنے کے بعد اب غالب مہمل میں یدطولیٰ رکھتے۔ نوٹ شیٹ ایسے لکھتے کہ نہ اگلے کو سمجھ آئے نہ پچھلے کو۔ لگے کہ کام بھی ہو گیا ہے اور شائد ابھی نہیں بھی ہوا۔ اپنے اس گُر کی بدولت انہیں ایک آدھ دفعہ شائد کوئی پرائزڈ پوسٹنگ بھی مل جاتی جو کہ کچھ عرصہ ’لذت کام و دہن‘ کا باعث بنتی اور غالب خوشی سے پھولے نہ سماتے ؎
ہوا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
پر جلد ہی یہ پوسٹنگ پھر ایک الگ سوہانِ روح کا باعث بن جاتی کہ اب تبادلہ ہوا کہ کب ہوا؎
ٹرانسفر کا ایک دن متعین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
بالآخر غالب سیٹ سے ہاتھ دھو بیٹھتے وہ بھی کسی اپنے کے ہاتھوں ہی کہ اٹھ گئی دنیا سے راہِ رسم و یاری ہائے ہائے اور غالب بے اختیار پکار اٹھتے
بن گیا رقیب آخر تھا جو بیچ میٹ اپنا
اور پھر یوں ان کی ریپوٹیشن ان کے Predecessorsکو کچھ یوں بتائی جاتی کہ
افسر تو وہ اچھا ہے پر بدنام بہت ہے
دورانِ سروس شومئی قسمت جو کبھی ان کو سرکاری گاڑی الاٹ ہوتی تو درد کی دوا اور درد لا دواء پا جاتے اللہ اللہ کر کے منزل مقصود پہ پہنچتے اور ہر بار دوران سفر انہیں سید ضمیر جعفری کی ’پرانی موٹر‘ یاد آتی جو یقیناً سرکاری گاڑیوں کی حالت زار دیکھ کہ لکھی گئی ہو گی کہ
یہ چلتی ہے تو دو طرفہ ندامت ساتھ چلتی ہے
بھرے بازار کی پوری ملامت ساتھ چلتی ہے
بہن کی التجا، ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے
کبھی بیلوں کے پیچھے جوت کر چلوائی جاتی ہے
کبھی خالی خدا کے نام پر کھچوائی جاتی ہے
پکڑ کر بھیجی جاتی ہے ’جکڑ‘ کر لائی جاتی ہے
وہ کہتے ہیں کہ اس میں پھر بھی موٹر پائی جاتی ہے
اور کبھی خدانخواستہ دفتر سے چھٹی چاہئے ہو تو ایک الگ مصیبت بن جاتی ہے ؎
ریمارکس دیکھ اپنا سا منہ لے کہ رہ گئے
صاحب کو ’چھٹی‘ نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
عموماً ایک کامیاب سول سرونٹ وہ ہوتا ہے جو دوران سروس ہی یا مولا پا جائے یا Moolah (مال) پا جائےسو غالب کی شاعری پہ تصوف کے اثرات بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ مالی حالات ناگفتہ بہ ہونے کے باعث غالب جلد ہی دنیا کی بے ثباتی پہ یقین لاتے ہوئے افسری کم اور فقیری پہ زیادہ دھیان دیتے اور پھر Multiple Chargesکے بوجھ تلے ’مشکلیں مجھ پہ پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘ کے مصداق جلد ہی وہ تحلیل نفسی اور من کا چور مارنے کے بعد ’دے وہ جس قدر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے‘ کو اپنا شعار بنا لیتے کہ ’درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا‘ پبلک ڈیلنگ میں غالب کا رویہ مناسب ہوتا اوپر کی آمدنی میں دلچسپی تو شائد نہ لیتے پر اگر کوئی سائل آموں کا ٹوکرا لے آتا تو انکار بھی نہ کرتے ’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے‘۔ لشتم پشتم ہر سال تنخواہ میں معمولی سے اضافے کی آس میں سترہ سے بائیس کر دیتے مگر تنخواہ کے بڑھنے تلک خرچے نہ بڑھ جائیں گے کیا والی صورتحال کے باعث عجیب کسمپرسی کی زندگی ہوتی کہ نہ دوا کے پیسے ہوتے اور نہ خاص کر دارو کے جو غالب جیسے قرض کی مے پینے والے کے لئے مزید فاقہ مستیوں کا باعث بنتی اور وہ اس شخص کو دل ہی دل میں کوستے جس نے انہیں اس کے جوائن کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ
پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اور اگر مر جایئے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو
ایک لگی بندھی روٹین بیچارے شاعر مزاج افسر کے لئے زہر قاتل ہوتی اور وہ اکثر دن کو اقتدار کے ایوانوں اور رات کو یادوں کے بالا خانوں میں اپنی ازلی تنہائی کے عالم میں زیر لب گنگناتے بلکہ بڑبڑاتے کہ
مارا سول سروس نے اسد اللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں اور جوانی کدھر گئی
اور کبھی جو نظر گھما کے اپنے جیسی Kindred Spiritsکا حال دیکھتے جو نہ جانے کب سے ہیں اس جہان خراب میں تو کف افسوس ملتے کہ کیسے کیسے انمول رتن اس’روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر‘ والی مجبوری کے باعث جانِ بسمل ہوئے
مقدور ہو تو FPSC سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کہئے
سروس کے آخری سال تو بالخصوص روح فرسا ثابت ہوتے اگرچہ غالب کے اپنے بچوں میں سے کوئی بھی زیادہ عرصہ حیات نہ رہا مگر ان کے لے پالکوں کی پرورش کے اخراجات اور غالب کا اپنا مخصوص مزاج ان کو ہر لمحہ Quitکرنے پر مجبور کرتا پر ’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘ اور پھر وہ اس ارادے کو عملی جامہ نہ پہنا سکتے۔
اب تو گھبرا کہ یہ کہتے ہیں کہ ریٹائر ہو جائیں گے
ریٹائر ہو کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اس مرحلہ پر پہنچ کہ تو اب ان کی وہ روایتی شوخی و بیباکی بھی عنقا ہو چکی ہوتی؎
سول سروس نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
بہرکیف کسی نہ کسی طور جب غالب کی اس طوق سے گلوخلاصی ہوتی تو اس کے بعد انہیں اپنی پنشن کے حصول کے لئے جب مزید جوتیاں گھسانی پڑتی تو جو رہے سہے تارے دوران سروس دیکھنے سے رہ گئے تھے وہ بھی اب نظر آ جاتے ’دھوئے گئے ہم اتنے کہ پاک ہو گئے‘۔
آخر کار ایک طویل، صبر آزما اور اذیت ناک انتظار کے بعد جب مالی معاملات قدرے بہتر ہوتے تو اب غالب آخری عمر گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے ہاں کبھی کبھار اگر کوئی بھولا بھٹکا نوجوان شاعری میں اصلاح لینے یا سی ایس ایس کی تیاری میں مدد لینے آتا تو اس کو زیر لب مسکرا کر خوش آمدید کہتے اور دل ہی دل میں کہتے؎
ہم کو معلوم ہے سول سروس کی حقیقت لیکن
دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
(منقول)

.
تازہ ترین