• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں جینے کیلئے دواحتیاطیں لازمی ہیں ۔اول یہ کہ اپنے ائیر کنڈیشنر کو 26ڈگری پر چلائیں اور دوم یہ کہ زندگی کاکوئی بھی اہم کام کرنے سے قبل پانامہ کے فیصلے کا انتظار کرلیں۔وطن عزیز میں اتنے ملی گیت اور ترانے تخلیق نہیں ہوئے جتنے حکومتی وزراء نے حکمرانوں کی مبینہ دیانتدار ی کے قصیدے گادئیے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے کپتان کی سربراہی میںحکومتی قلعہ پر اتنے ہی حملے کئے ہیں کہ اب وہ سومنات کے ’’ورلڈ ریکارڈ‘‘ کو چیلنج کرسکتی ہے۔ اس ملک کا بچہ بچہ جانتاہے کہ حکمران شریف خاندان کے مالی معاملات کے حوالے سے ملک کی عدالتوں میں ایک مقدمہ زیر سماعت ہے جسے ’’پانامہ ‘‘ کہاگیاہے ۔منی ٹریل بیان کرنے کی بجائے ہربیان سامنے آرہاہے۔طلال چوہدری نے کہاہے کہ ’’جو (جے آئی ٹی) اپنی کرسی کے نیچے سے نکلنے والی تصویر کو انصاف نہیں دے سکتی وہ کسی دوسرے کو کیاانصاف دے گی ‘‘۔نہال ہاشمی نے کہاکہ ’’ تمہارے بچوں پر زمین تنگ کردیں گے ‘‘۔تاہم اس شعلہ بیاں نے بعدازاں کہاکہ میں روزے سے تھا،تنخواہ داروں کو دھمکیاں دیں اور پھر کہاکہ بنی گالہ والوں سے مخاطب ہواتھا۔یہ کہتے ہوئے سینیٹر شپ سے استعفیٰ توواپس لے لیامگر یہ نہیں بتایاکہ بنی گالہ میں کون ہے جس نے ’’ریٹائر‘‘ ہونا ہے ۔
(LOYALTY)سیاسی وفاداری کی اس میراتھن میں مریم اورنگ زیب، خواجہ سعد رفیق، خواجہ آصف، دانیال عزیز، آصف کرمانی ، پرویز رشید ، مشاہد اللہ خان، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری ، ڈاکٹر مصدق ملک اور احسن اقبال سمیت کوئی بھی پیچھے نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ شریف خاندان کا نہیں حکومت کا احتساب ہورہاہے۔ پانامہ کے حوالے سے وزیر اعظم نوازشریف ، شہباز شریف ، مریم نواز،حمزہ شہباز، حسین نوازاور حسن نوازکے بیانات بھی سامنے آرہے ہیں۔اس ضمن میں خادم اعلیٰ قبلہ شہبازشریف کا بیان بھی قابل ذکر ہے ۔فرماتے ہیں کہ ’’ہاتھ جوڑ کرکہوں گاکہ احتساب سب کا ہونا چاہئے ،صرف ایک خاندان پر بندوق تان لینا انصاف نہیں ‘‘۔یہ کوئی تنازع نہیں کہ احتساب سب کا ہونا چاہئے !!!واقعی احتساب سب کا ہونا چاہئے لیکن کیا ایسا ہورہاہے ؟ اگریہ سچ ہوتاتو جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف اپنے اوپر قائم مقدمات کا سامنا کررہے ہوتے۔ اس پوائنٹ پر تو خادم اعلیٰ سچے ہیں کیونکہ جنرل صاحب کمر درد کا میڈیکل سرٹیفکیٹ مہیا کرکے دبئی رہائش پذیر ہیں ، اور کبھی کبھار نجی محافل میں ۔ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ پر تھرکتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہانی کا دوسر رخ ملاحظہ کیجئے کہ اس ملک میں منتخب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور پھر بہت سال بعد اسکی ہی پیپلز پارٹی کے متفقہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قراردیکر گھر بھیج دیاگیا۔ٹاک شوزمیں اکثر کہاجاتاہے کہ پیپلز پارٹی کے قائدین نے ڈکٹیٹر مشرف کیساتھ این آر او کیاتھا۔مانچسٹر میں پرویز مشرف نے مجھے خود بتایاتھاکہ مجھے میرے سیاسی حلیفوں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہٰی نے مشورہ دیاتھاکہ میں این آراو کرلوں اورتیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر پابندی عائدرکھوں۔لندن اورمانچسٹر کے اس یاد گار ٹرپ پرہمیں ہمارے BUDDY(جگری دوست) ایڈوکیٹ فواد چوہدری لیکر گئے تھے جو اس وقت مشرف کے لیگل ایڈوائزر ہوا کرتے تھے۔ مجھے لندن اور مانچسٹر کی وہ راتیں بھولتی نہیں ہیں ۔ہم ہرشام جنرل صاحب کے ساتھ بیٹھتے تھے جن میں ایک شام مشرف صاحب نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ این آر او کیلئے جب آصف علی زرداری کے کیسز کی چھان بین کی گئی تو پتہ چلاکہ تمام کیسز سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے تھے اور ویسے بھی زرداری صاحب اپنے مبینہ جرائم سے زیادہ سزا کاٹ چکے تھے۔زرداری صاحب کی طرف سے اس ’’فلمی اسٹائل‘‘ کی طویل قیدکو کاٹنے پر ملک کے ایک سینئر صحافی نے انہیں (مرد حُر) کا خطاب بھی دیاتھا جنہیں ان کا سیاسی مخالف ہونے کا ’’اعزاز‘‘ حاصل رہاہے۔نون لیگ کی میڈیا الیون فرنٹ فٹ پر کھیلتے ہوئے روزانہ ایک بیان داغتی ہے۔آصف کرمانی نے جے آئی ٹی کو جیمزبانڈ قراردیا ہے۔سب جانتے ہیںکہ جیمزبانڈبرطانوی جاسوس ہے اور شریف خاندان کے جن فلیٹس کا مالی معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے وہ بھی برطانیہ کے دل لندن میں واقع ہیں۔اس کہانی کے ہیروز ،سائیڈہیروزاورایکسٹراز کی پرفارمنس کو دیکھتے ہوئے مجھے پاکستان فلم انڈسٹری کے 12عدد اونچے لمبے اور چوڑے چکلے ولن یاد آگئے جو ’’12 چوڑوں ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔سلطان راہی اورمصطفی قریشی کی طرح یہ بارہ چوڑے بھی فلم کا لازمی حصہ خیال کئے جاتے تھے۔مولاجٹ ،شیر خان،چن وریام اور دوسری پنجابی فلموں میںیہ سب کے سب ہاف ٹائم اور وائنڈاپ پر اپنی فلمی موت آپ مرجایاکرتے تھے۔ان 12چوڑوں کے نام مجھے آج بھی یاد ہیں جن میں ظاہر شاہ ،ادیب،جگی ملک ،طارق شاہ ، الطاف خان، میاں بادل ،خاور بٹ،اقبال درانی ، نصرا للہ بٹ،فاضل بٹ، حیدر عباس اوراچھی خان شامل تھے۔
سلطان راہی ان 12چوڑوں کو بیسیوں فلموں میں درجنوں بار قتل کرچکے تھے ۔یہ محنت کش ایکٹرز ہر فلم میں ایک طرح کی سچویشن،ایک طرح کا کریکٹر،ایک طرح کے کپڑے ،وہی ایک ڈائیلاگ ادا کرتے ہوئے سلطان راہی کے ہاتھوں قتل ہوجایاکرتے تھے۔ان کے نزدیک سلطان راہی کے سامنے مارلن برانڈو،ال پچینواوررابرٹ ڈی نیرو کچھ بھی نہیں تھے۔ بارہ چوڑوں کی نظر میں سینہ چوڑا کرکے اونچی آواز میں بولنا بہت عمدہ ایکٹنگ ہواکرتی تھی ۔آج احاطہ عدالت کے باہر اور ٹاک شوز میں بولنے والے سائیڈہیروز کو اونچی آواز میں بولتادیکھتا ہوں تو مجھے فلم انڈسٹری کے وہ 12چوڑے یاد آجاتے ہیں جن کا آئیڈیل سلطان راہی مرحوم ہواکرتے تھے۔ڈاکٹر فضل چوہدری کے بیان سے میں بڑا متاثر ہواہوں جنہوں نےایک ٹاک شو میں کہاہے کہ ’’نواز شریف ایک نظریے کانام ہے، فیصلہ کچھ بھی آئے ہم اس نظریے کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘‘۔ڈاکٹر طارق فضل چوہدری جو یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف صاحب کارل مارکس کے پائے کے نظریاتی اور انقلابی لیڈر ہیںوہ یہ سمجھتے رہیں اس پر کسی کو اعتراض نہیں کیونکہ وہ ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ چوہدری بھی ہیں۔
یہ سب درست ہے لیکن وہ پانامہ کی منی ٹریل بھی ضرور سامنے لائیں۔احتساب سب کا ہونا چاہئے اور سب سے پہلے حکمرانوں کا ہوناچاہئے جوشروع ہوچکا اور اب اسے پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہئے۔ وٹس ایپ کال،ایمبولینس کی آمداور حسین نوازکی تصویر لیک نہیں ہونی چاہئے تھی اگر ایسا ہوا ہے تو اس کو تضحیک قراردینے کی بجائے منی ٹریل مہیاکی جانی چاہئے تاکہ حکمران خاندان پانامہ سے سرخرو ہوسکے۔حسین نوازکی تصویر کو اسلئے تضحیک قراردیا جارہاہے کہ وہ منتخب وزیر اعظم کے بیٹے ہیںلیکن یہاں تو خود وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دی گئی اور ان کی وزیر اعظم بیٹی بینظیر بھٹو عدالتوں کے باہر اپنے بچوں کے ساتھ زمین پر بیٹھی رہی۔ فراز نے ایسی ہی کسی تصویر کیلئے کہاتھاکہ
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھاہے تیری تصویر کا

تازہ ترین