• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منتخب ہونے سے قبل ہی اسلام دشمنی کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنا لیا تھااسلام اور مسلمانوں کیخلاف وہ کھل کر بولتے رہے وہی نہیں بلکہ تمام عالمی کلیسائی قوتیں اپنی اسلام دشمنی پر متفق و متحد ہیں، مسلمانوں کے خلاف ان کا اتحاد بہت مضبوط اور اہم ہے۔ قطر سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا یوں اچانک سفارتی تعلقات توڑ لیناحیران کن نہیں ہے کیونکہ ابھی زیادہ دیر نہیں گزری جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا تب ہی اہل درد کے کان کھڑے ہوگئے تھے اس کا نتیجہ قطر سعودی اختلافات کی صورت سامنے آگیا ہے کلیسا نے اب میدان جنگ میں مقابلہ کرنے کی بجائےتمہاری جوتی تمہارا ہی سر کا طریقہ کار اپنا لیا ہے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے ان کے ٹوٹے پھوٹے اتحاد کو مزید منتشر کرنے اور اختلافات کو ہوا دینے کی منصوبہ بندی امریکی خفیہ ایجنسیوں کا اولین کام ہے۔ کلیسا اور اس کے حامی ہمیشہ سے مسلمانوں کے اتحاد کی قوت سے خوف زدہ رہے ہیں صلیبی جنگوں کے زخموں کو وہ بھرنے نہیں دیتے اور اپنے انتقام کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔ قطر جس پر حوثی اور ایرانی گروپوں کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا ہے، اس کی حقیقت کیا ہے یہ حوثی کون ہیں کیا یہ کہیں آسمان سے نازل ہوئے ہیں یہ سب طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی مانند خود امریکی ایجنسیوں کی پیداوار ہیں مسلمانوں کو آپس میں لڑوانے اور اقتدار پر قابض ہونے کا جھانسہ دے کر ان کی کمر پر ہاتھ رکھ کر انہیں انتقام کی آگ میں دھکا دینے والے ہاتھ امریکی ہی ہیں امریکہ اور یورپ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری مسلم اتحاد قائم نہ ہونے دینے اور اگر کہیں کسی طرح کوئی اتحاد بن بھی رہا ہو تو اسے جلد از جلد ختم کردینے کی حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کل تک مسلمانوں کے خلاف اور خود سعودی عرب کے خلاف بیان بازی کرتا رہا تھا یوں اچانک نہیں بلکہ امریکی ایجنسیوں کے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سعودی عرب میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے پہنچا تھا اور جس منصوبے کے تحت وہ سعودی کانفرنس میں شامل ہوا اس کا نتیجہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کس طرح سعودیہ اور اس کے چھ اتحادیوں نے ایک ہی جھٹکے میں قطر کو تنہا کردیا۔ اس کی بظاہر کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ قطر نے سعودی ایران کشیدگی میں فریق بننے سے انکار کردیا، اس کے علاوہ بھی چار بڑی اور اہم وجوہات ہیں۔ لیبیا تنازع، ایران کا شام و یمن کے بارے میں رویہ، اخوان المسلمین تنظیم کا معاملہ اور الجزیرہ ٹی وی کا رویہ، مشرق وسطیٰ میں مصروف عرب اسپرنگ نامی انقلابی لہر کے بعد سیاسی تبدیلیوں کے دوران قطر اور ہمسایہ ممالک کی حمایت کرنا،دوحا نے مصر میں اسلام پسندوں کی حمایت کی تھی جس میں 2013ء میں جب مصر کے سابق صدر محمد مرسی کو معزول کیا گیا تو قطر نے ان کی جماعت اخوان المسلمین کو پلیٹ فارم فراہم کیا تھا جس پر مصر نے پابندی لگا دی تھی مصر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی اخوان المسلمین کو ایک دہشت گرد تنظیم مانتے ہیں اس کے ساتھ ہی ایران کا رویہ جس پر سعودی عرب کو ایک عرصے سے تہران کے موقف اور خطے میں اس کے عزائم پر تشویش رہی ہے کیونکہ سعودی عرب کے شیعہ اکثریت والے علاقوں میں ایران کی مداخلت اور پشت پناہی رکھنے والے گروہوں پر شدت پسند کاررروائیوں کا الزام ہے جبکہ قطر اس بات پر زور دے رہا ہے کہ یہ تمام محض الزامات ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ان تمام عائد الزامات کی قطر وزارت خارجہ نے تردید کی ہے جبکہ سعودی عرب نے قطر سے تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تو ساتھ ہی متحدہ عرب امارات بحرین، مصر، لیبیا اور یمن نے بھی قطر سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں یہاں تک کہ قطر کو سعودی عرب میں بننے والے عرب فوجی اتحاد سے بھی خارج کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ شدید بحران کا شکار نظر آتا ہے اس ساری صورت حال میں پاکستان کا سعودی عرب اور دیگر ممالک سے خوشگوار تعلقات کے باوجود قطر سے اپنے سفارتی تعلقات کو بحال رکھنا بڑے حوصلے، ہمت اور حکمت عملی کی بات ہے جبکہ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنے زمینی، آبی اور فضائی رابطے بھی منقطع کر لئے ہیں اور اپنی قومی سلامتی کے پیش نظر سعودی عرب نے قطر سے ملنے والی سرحد کو بھی بند کردیا ہے سعودی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ قطر کی حمایت کے باعث القاعدہ، داعش جیسے تنظیمیں اور باغی ملیشیا مضبوط ہو رہی ہیں۔ بحرین نے بھی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت اور قومی سلامتی کو خراب کرنے کا الزام لگایا ہے، مصر نے بھی کئی الزامات عائد کیے ہیں اور قطری جہازوں کے لئے اپنی بندرگاہ اور ہوائی اڈے بند کر دیے ہیں یہ فیصلہ مصر نے اپنی قومی سلامتی کے پیش نظر کیا ہے ابو ظہبی نے قطر پر نہ صرف دہشت گرد، انتہا پسند اور مسلکی تنظیموں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کیا ہے بلکہ یمن کی حکومت نے جو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے نے الزام عائد کیا ہے کہ قطر حکومت یمن دشمنوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور قطر ایران کے ساتھ مل کر یمن میں حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے۔
سعودی عرب اور قطر دونوں ہی امریکا کے حلیف ہیں۔ سعودی عرب کے شہر دمام میں اور قطر کے دوحا میں امریکی فوجی چھائونی ہے ہزاروں امریکی فوجی اپنے پورے ساز و سامان کے ساتھ وہاں موجود ہیں اس کے باوجود دونوں آمنے سامنے آنے کو تیار کھڑے ہیں آخر ایسا کیوں ہے کیا امریکا مداخلت کرکے انہیں روک نہیں سکتا تھا لیکن نہیں اگر دونوں ممالک بر سر پیکار ہوجاتے ہیں تو دونوں ہی لڑنے کے لئے امریکا سے ہتھیار خریدیں گے اور ہوسکتا ہے کہ جنگ اس قدر بڑھ جائے جس کی امریکی پوری کوشش کریں گے کہ دونوں ہی ممالک کا محفوظ سرمایہ امریکی اسلحہ کی خریداری کی نذر ہو جائے دونوں ممالک ایک بار پھر امریکا کے مقروض ہوجائیںاور امریکا کو ان ممالک میں اپنے پیر جمانے کا مزید موقع مل جائے شاید یہی وجہ ہے کہ امریکا نے دونوں ہی ممالک کو تھپکی دے دی ہے چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا سعودی عرب کو تو امریکا نے پہلے ہی یمن، شام کے حوالے سے آگ میں جھونک رکھا ہے اب رہی سہی کسر قطر میں نکل جائے گی۔ پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ امت مسلمہ کو متحد اور یک جاں رکھا جائے ماضی میں بھی ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے میں پاکستان کے جنرل ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے اور خطے میں ہونے والے اختلافات کو ختم کرنے میں معاونت کی تھی اب بھی پاکستان اپنا بھرپور مثبت کردار ادا کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے قطر سے اپنے سفارتی تعلقات تمام تر بیرونی دبائو کے باوجود برقرار رکھے ہوئے ہیں تاکہ خطے میں پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے پاکستان ہمیشہ سے مسلم امہ کے اتحاد کا حامی اور قائل رہا ہے یقینا پاکستان اسلامی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے اس نئے تنازع کے حل کے لئے اپنی سی کوشش کرے گا۔ اللہ تعالیٰ مسلم امہ کو یہود و نصاریٰ کی سازشوں سے محفوظ و مامون رکھے اور پاکستان کو اپنا مثبت کردار ادا کرنے اور سرخرو ہونے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

تازہ ترین