• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک انگریزی مقولے کے مطابق آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اور ظاہر ہے اس مقولے کے درست ہونے کے بارے میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ بات انگریزی میں کہی گئی ہے، تاہم قارئین سے التماس ہے کہ وہ مجھے صحبت سے پہچاننے کی کوشش نہ کریں اور خصوصی طور پراس کالم کے حوالے سے نہ پہچانیں تو ان کی مہربانی ہوگی۔ مثلاً گزشتہ روز دوستوں میں سے ایک دوست سرراہ ملے مجھےہجوم سے علیحدہ لے گئے اور رازداری سے پوچھنے لگے مصروف تو نہیں ہو؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو سرگوشی کے انداز میں بولے’’تو میرے ساتھ آجائو!‘‘ میں نے غور سے ان کی طرف دیکھا تو میں ڈر گیا، اس وقت ان کے چہرے پر عجیب قسم کے تاثرات تھے انہوں نے میری کیفیت کو نظر انداز کرتے ہوئے برابر میںکھڑے کوچوان کو اشارہ کیا ، کوچوان فوراً تانگہ لے کر آگیا، یہ خاص’’تماش بینوں‘‘ والا تانگہ تھا کوچوان کا حلیہ بھی بدنام قسم کے تانگوں کے کوچوانوں جیسا تھا۔لمبی مونچھیں کاندھے پر رومال اور آنکھوں میں بے غیرتی! کوچوان نے گھوڑے کو چابک رسید کی اور شدید گرمی کی وجہ سے نسبتاً خالی سڑک پربگٹٹ دوڑنے لگا۔ دوست نے کوچوان سے آہستگی سے پوچھا نئی جگہ ہے؟’’کہیں اس روز والی جگہ پر نہ لے جانا‘‘۔
’’بے فکر رہیں جناب آپ اس سے پہلے وہاں کبھی نہیں گئے۔‘‘
’’کوئی خطرہ تو نہیں۔‘‘دوست نے پوچھا
’’کیسی باتیں کرتے ہیں بائو جی میں آپ کو ایسی ویسی جگہ پر کیوں لے جائوں گا بالکل محفوظ جگہ ہے۔ آخر ہم عزت والے لوگ ہیں۔‘‘
یہ سن کر میرے دوست کا کھنچا ہوا چہرہ کچھ نارمل ہوگیا میں نے پوچھا’’تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟‘‘
انہوں نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا اور پھر خود ہی کہا’’اب ساتھ آہی گئے ہو تو بولنے کی ضرورت نہیں ویسے تمہیں ابھی پتا چل جائے گا‘‘ تھوڑی دیر تانگہ مختلف سڑکوں سے ہوتا ہوا ایک گلی کی نکڑ پر کھڑا ہوگیا۔
’’نیچے آجائیں‘‘ کوچوان نے آہستگی سے کہا’’میں اس گلی میں جارہا ہوں آپ تھوڑی دیر بعد میرے پیچھے پیچھے آجائیں۔‘‘
تین چار گلیوں کے موڑ مڑنے کے بعد کوچوان ایک خالی پلاٹ کے پاس جاکے کھڑا ہوگیا۔ یہاں سیمنٹ کا بنا ہوا ایک بڑا سارا سیوریج کا موگا پڑا تھا جس کا دہانہ اتنا چوڑا تھا کہ اس میں ایک جوان آدمی صرف داخل ہی نہیں ہوسکتا تھا بلکہ اس میں پوری سہولت سے بیٹھ بھی سکتا تھا۔
’’یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘ میرے دوست نے گھبراہٹ کے عالم میں کہا۔
’’سب کچھ ہے میری سرکار سب کچھ ہے آپ مولا کے رنگ تو دیکھیں‘‘ کوچوان نے اپنے چہرے پر شیطانی سی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا
اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دو انگلیاں ہونٹوں کے نیچے رکھ کر ہولے سی سیٹی ماری، پلاٹ کے دوسرے کنارے پر بیٹھا ہوا ایک شخص جو ایک دس بارہ سال کے لڑکے کے ساتھ مصروف گفتگو تھا، سیٹی کی آواز سن کر چونکا اور پھر کوچوان کو دیکھ کر تیر کی طرح اس کی طرف آیا۔
’’بائو جی!اپنے خاص آدمی ہیں تمہارے پاس آتے رہا کریں گے‘‘
’’کوئی بات نہیں بادشاہ، ہم تمہارے نوکر ہیں‘‘ اور یہ کہہ کر وہ شخص موگے کے اندر گھس گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک پلیٹ میں چھ کباب اور چار سلائس ہاتھ میں پکڑے باہر نکلا اور بولا’’چاہے تو آپ موگے کی دوسری طرف بیٹھ کر کھالیں اور چاہے ا ندر گھس جائیں کافی جگہ ہے۔ اللہ کے فضل سے پورے شہر میں رمضان المبارک کے مہینے میں کھانے پینے کیلئے اس سے محفوظ جگہ کوئی نہیں ہے۔‘‘
یہ واقعہ پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں نے کالم کے آغاز میں اپنے دوستوں کے حوالے سے جو معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا تھا تو ایسے ہی نہیں کیا تھا کیونکہ ان کی وجہ سے مجھے دن میں کئی مرتبہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ شرمندگی اپنے روزہ خور دوستوں کی ہی وجہ سے نہیں اٹھانا پڑتی بلکہ روزہ دار دوست بھی ندامت کا باعث بنتے ہیں۔ ان میں سے تو ایک ایسے ہیں کہ سحری کھانے کے فوراً بعد کہنا شروع کردیتے ہیں کہ آج روزہ بہت لگ رہا ہے دفتر آتے ہیں تو ہر ایک سے فرداً فرداً پوچھتے ہیں’’تمہارا روزہ ہے؟‘‘ اور اس کا جواب سنے بغیر کہتے ہیں’’میرا تو ہے‘‘ موصوف یہی نہیں کرتے بلکہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی جگہ سے اٹھ کر نلکے کی طرف جاتے ہیں کلیاں کرتے ہیں زور زور سے غرارے کرتے ہیں۔ کھنگار پھینکتے ہیں اور منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے ہیں اور واپسی پر ایک بار احتیاطاً فرداً فرداً سب سے پوچھتے ہیں’’تمہارا روزہ ہے‘‘ میرے یہ دوست آگے پیچھے گفتگو کے دوران اپنے اور مخاطب کے درمیان ہمیشہ ایک’’باعزت فاصلہ‘‘ رکھتے ہیں مگر رمضان کے مہینے میں بحالت روزہ اپنا منہ دوستوں کے منہ کے باکل قریب لے جاتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ ان سے کہا یہ تمہارے منہ سے بو آتی ہے ذرا فاصلے پر رہ کر گفتگو کیا کرو مگر انہوں نے یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ اللہ تعالیٰ کو روزہ دار کے منہ کی بو پسند ہے۔ اب انہیں کون بتائے کہ اللہ تعالیٰ والی بات تو ٹھیک ہے لیکن اس کے بعد ناہنجار بندوں کو یہ بو پسند نہیں، لہٰذا ان گنہگار بندوں کو مزید گنہگار کیوں کرتے ہو مگر ان کا دبدبہ اتنا ہے کہ میں یہ بات ان سے کہہ نہیں پاتا، خصوصاً بحالت روزہ تو وہ جھانپڑ بھی رسید کردیتے ہیں مگر اگلے روز گھر پہنچ جاتے ہیں اور ہاتھ جوڑ کرکہتے ہیں کہ’’یار معاف کرو دو کل مجھ سے زیادتی ہوگئی میں دراصل روزے سے تھا تمہارا روزہ ہے؟‘‘

 

.

تازہ ترین