• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاستدان گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کر رہے ہیں۔ ایک تقریر کرتاہے تو دوسرا جواب دیتاہے۔ سپریم کورٹ کے حکم پر جےآئی ٹی تحقیقات کر رہی ہے، تحقیقات کو تختہ ٔ مشق بنایا جارہا ہے۔ سادہ سی بات ہے اگر کسی نے کرپشن نہ کی ہو، اگر کسی نے چوری نہ کی ہو تو پھر کس بات کا ڈر ہے، خوف سے زبانیں کیوں لڑکھڑا رہی ہیں، سچائی کی تلاش کےموسم میںدراز ہوتی ہوئی زبانیں کیا خبر دے رہی ہیں ، طرح طرح کی باتیں کیوں کی جارہی ہیں، کیا یہ بات اچھی نہیں کہ سب کا حساب ہو جائے۔ آخر بیرونی بنکوں میں دولت تو پاکستانیوں کی پڑی ہوئی ہے۔ آخر بیرونی دنیا میںان گنت جائیدادیں پاکستانیوں کی ہیں، یہ کون سے پاکستانی ہیں؟ ان کے چہرے بے نقاب ہونے چاہئیں، لوٹ مار کا حساب ہونا چاہئے، کس نے اس ملک کو کتنا لوٹا، یہ حساب ہونا چاہئے۔ یاد رہے کہ دہشت گردی سے معاشی دہشت گردی جڑی ہوئی ہے۔
ترجمان اور مقرر پکار رہے ہیں کہ ثبوت لائے جائیں۔ اس سوال کا جواب اسلامی تاریخ کے ابتدائی سالوں میں ملتاہے۔ جب ایک شخص نے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقؓ سے الزام کی صورت میں سوال کیا کہ جب ہر ایک کے حصے میں ایک ایک چادر آئی تھی تو آپؓ جیسے درازقد کا لباس ایک چادر میں کیسے بن گیا؟ حضرت عمر فاروقؓ نے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھاکہ ثبوت لائو بلکہ خود ثبوت دیا۔ اپنے بیٹے کو پیش کیا جس نے لوگوں کے سامنے الزام لگانے والے کو بتایا کہ ’’جو چادر میرے حصے میں آئی تھی وہ میں نے اپنے باپ کو دے دی تھی۔ اسی لئے میرے دراز قد والد کا لباس بن پایا.....‘‘ الزامات کے جواب کا یہ وہ احسن طریقہ ہے جو خلیفہ ٔ دوم نے اپنایا۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی یہی طریقہ اپنانا چاہئے۔ خود ہمارے وزیراعظم نے ایوان میں کھڑے ہو کے کہا تھا کہ ان کے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔ اب جب ان ذرائع کا پوچھا جارہا ہے تو کاہے کی پریشانی؟ جےآئی ٹی میں پیش ہونے والے ایک صاحب نے تو اسے نظریہ ٔ پاکستان کامقدمہ بنا دیا۔ صاحبو! یہ مینار ِ پاکستان کا مقدمہ تو نہیں ملکی دولت کا حساب ہے۔ قوم خوش ہے کہ کسی طاقتور کا حساب بھی ہو رہا ہے۔ جے آئی ٹی عوام کی نظر میں بالکل متنازع نہیں ہے بلکہ جے آئی ٹی تو سپریم کورٹ کے دیئے گئے دائرہ ٔ اختیارمیں رہ کر تحقیقات کر رہی ہے۔ پتہ نہیں لوگ کیوں رو رہے ہیں۔ کیا لوگوں کو سمجھ نہیں کہ آخر یہ ملک کیوں مقروض ہوا؟ اس ملک میں پیدا ہونے والا بچہ کیوں مقروض ہوتاہے؟ کرپشن کی داستانیں پچھلے 35سالوں میں درازہوئیں۔
میں اس پر تو کوئی تبصرہ نہیں کروںگا کہ گیانی ذیل سنگھ نے کیا کہا البتہ مجھے اتنا ضرور یاد ہے کہ پاناما پیپرز آنے کے بعد کئی ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں نے استعفے دے دیئے تھے، کئی ملکوں میں تحقیقات شروع ہوگئی تھیں۔ حقیقتیں اور بھی تلخ ہیں مگر میںتلخیوں میں نہیں جانا چاہتا، مجھے تو اتنی خبر ہے کہ میرے دیس کو لوٹاگیا۔ میری خواہش ہے کہ جس جس نے بھی لوٹا، اس سے حساب لیا جانا چاہئے۔ یاد رکھئے وہ وقت قریب آگیا ہے اب سب کا حساب ہونے والا ہے۔ آج مسلمانوں کی رسوائی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ زیادہ تر مسلمان ملکوں میںامیر اور غریب کے لئے قانون ایک نہیں ہے۔
چند روز پیشتر ترکی کے جلاوطن رہنما فتح اللہ گولن کا ایک مضمون ’’جنگ‘‘ کے صفحات پر شائع ہوا۔ 20سالہ جلاوطنی کے حامل فتح اللہ گولن لکھتے ہیں.....’’اردوان نے گزشتہ 15جولائی کو کی جانے والی عسکری بغاوت کے بعد بے گناہ لوگوں پر ایک منظم طریقے سے مظالم ڈھانے کاآغاز کیا۔ کرد، علوی، بائیں بازو والے، صحافی، ماہرین تعلیم اور مجھ سے منسلک ایک پرامن انسانی تحریک ’’خدمت‘‘ کے ارکان سمیت تین لاکھ سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا گیا،گرفتار کیا گیا، ملازمتوں سے برطرف کیا گیا یا پھر مختلف طریقوں سے ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کردیا گیا.....‘‘ آج ترکی میں جس طرح کی جمہوریت ہے اس میںترک عدالتیں بھی قید ہیں، جب عدالتیں قیدہو جائیں تو انصاف قیدی بن جاتا ہے۔ انصاف قیدی ہو تو ظلم کا راج ہوتا ہے اور ظلم کے راج میں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ معیار بن جاتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ میں اس واقعہ کوکیسے نکالا جائے جب سپریم کورٹ پر جمہوریت کے علمبردار حملہ آور ہوئے تھے۔ کیا جمہوریت یہ درس دیتی ہے؟ جھوٹ بولنا اور لکھنا دونوں غلط ہیں۔ تاریخ کے اوراق سے واقعات کیسے غائب کئے جائیں؟ خواجہ سعد رفیق نے درست کہا ہے کہ افتخار چوہدری اگر ارسلان افتخار کے معاملے میں انصاف سے کام لیتے تو آج ان کا نام اور حوالے سے لیا جاتا۔
میں مسلمانوں کی رسوائی پر جب بھی غور کرتا ہوں تو ایک جواب میرے سامنے بارہا آتا ہے کہ مسلمانوں کے خلفاء محلات میں نہیں رہتے تھے بلکہ عام سے گھروں میں رہائش پذیر تھے جبکہ آج تمام عرب حکمران محلات میں رہتےہیں۔ سلطان آف برونائی بڑے محل میںرہتا ہے۔ سونے کی نمائش کرتا ہے۔ پاکستان کے بڑے سیاستدان محلات میں رہتے ہیں۔ ان کے بیرون ملک بھی محلات ہیں۔ مسلمانوں کے خلفا ء قانون کی پاسداری کرتے تھے جبکہ آج کے مسلمان حکمران قانون کےتابع ہونے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں جس نے بھی ظلم کا راستہ اپنایا، مفتیانِ دین کو استعمال کیا، لکھاریوں سے مرضی کی تحریریں لکھوائیں مگر پھر ایسے لوگوں کے نام مٹ گئے۔ تخت پر بیٹھے ہوئے لوگوں کو تاریخ کا کوئی سبق یاد نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں ٹاہلی والا ڈیرہ غازی خان کے سید غلام عباس المعروف محسن ؔ نقوی کا شعر پیش کر رہا ہوں، شاید انہیں سمجھ آ جائے؎
تخت والوں نے مورخ بھی خریدے ہوں گے
ذکر دنیا میں مگر شام و سحر کس کا ہے

تازہ ترین