• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں تیسرے مارشل لا کا دور تھا۔آئین و قانون کا نام و نشان نہیں تھا۔ہر شخص ظلمت کو ضیاء کہہ رہا تھا۔فوجی آمر ضیا الحق آئین پاکستان کو ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے۔منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکانے کے بعد جنرل(ر) ضیاء الحق کو اپنے اقتدار کو طول دینے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی تھی۔چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے منہ سے نکلا ہوا لفظ قانون کہلاتا تھا۔ایسے ظلم و جبر کے حالات میں ایک دن ضیا الحق کو سینئر افسر نے رپورٹ پیش کی۔رپورٹ ملک کی مقبول ترین خاتون سیاسی رہنما کے حوالے سے تھی۔مشیران کی رائے تھی کہ اس رپورٹ کو خبر بنا کر پورے ملک میں پھیلادیا جائے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد یہ خبر پی پی پی کے جیالوں کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں ہوگی۔آمر حکمران کے مشیران کی رائے تھی کہ اخلاقیات اور عوامی طاقت کا درس دینے والی پیپلزپارٹی کا رپورٹ منظر عام پر آنے سے جنازہ نکل جائے گا۔مگر بھٹو کے بدترین دشمن ضیاالحق نے سخت حکم جاری کیا کہ یہ معلومات لیک نہیں ہونی چاہئیں۔بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں۔اسی طریقے سے 90کی دہائی میں نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان سیاسی رسہ کشی عروج پر تھی۔ایک دوسرے پر نت نئے الزامات لگائے جاتے تھے۔مگر کسی بھی لیڈر نے اخلاقیات اور مشرقی روایات کو دفن نہیں کیا بلکہ ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو نے نوازشریف کی وفاقی حکومت کے خلاف دھرنا دینے کا اعلان کیا۔بے نظیر بھٹو کو ہر صورت اسلام آباد داخل ہونے سے روکنے کا حکم جاری کردیا گیا۔پولیس سروس آف پاکستان کے ریٹائرڈ افسر پرویز راٹھور ایس ایس پی اسلام آباد تھے۔جبکہ پاکستان ایڈمنسٹریٹوسروس کے سعید مہدی چیف کمشنر اسلام آباد تھے۔پرویز راٹھور نے وائرلیس پر اپنی فورس کو حکم دیا کہ فاروق لغاری جس گاڑی کو ڈرائیو کررہے ہیں اور محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اسی گاڑی میں موجود ہیں،اسے آئی ایٹ کے راستے اسلام آباد میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ایک ایسا موقع بھی آیا جب پولیس فورس نے لاٹھی چارج کے ذریعے بی بی کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکنے کا فیصلہ کیا،مگر چیف کمشنر اسلام آباد نے فوری مداخلت کرکے پولیس کو ایسے کسی بھی اقدام سے باز رہنے کا کہا۔وزیراعظم نوازشریف کو جب بتایا گیا کہ پولیس بے نظیر پر لاٹھی چارج کرنا چاہتی تھی اور چیف کمشنر اسلام آباد نے ایسا نہیں کرنے دیا،اس لئے بے نظیر بھٹو کی گاڑی دارالحکومت میں داخل ہوئی۔ چیف کمشنر اسلام آباد نے اپنی وضاحت دی کہ بے نظیر علیل تھیں۔ ایسے میں لاٹھی چارج سے بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔نوازشریف نے یہ سن کر چیف کمشنر کو شاباش دی اور آئندہ بھی ایسے فیصلے کرنے کی ہدایت دی۔ لیکن جب ان واقعات کو یادداشتوں میں لاتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سب ایک خواب تھا۔
سیاسی اختلافات میں ہم مشرقی روایات کو مکمل بھلا چکے ہیں۔نوازشریف کے خلاف پاناما کیس نے کچھ اور ہمیں دیا ہے یا نہیں مگر ہماری اخلاقیات کو ضرور ہم سے چھین لیا ہے۔پاناما کیس کو جواز بنا کر جس جس ادارے نے جو کچھ کیا ہے،سب قارئین کے سامنے ہیں۔ احتساب کرنا اچھا عمل ہے،مگر مشرف کے انتقام یا پھر سویلین بالادستی کا سبق سیکھانے کے لئے پاناما کیس کو ہوا دینا کہا ں کا انصاف ہے۔اسی پر ایک شعر یاد آرہا ہے
دیوار کیا گری میرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
پاناما کیس کو احتساب اور قانون کی حکمرانی سے جوڑنے والے کاش جنرل(ر) مشرف،کیانی برادران سمیت ہر اس شخص کا احتساب کرتے جو اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھتا ہے۔آج معاملہ نوازشریف کا نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شخص کا ہے جو ملک میں سویلین بالادستی اور آئین کی حکمرانی کی واحد امید ہے۔پہلے ڈان لیکس میں من پسند رپورٹ تیار کروا کر نوازشریف کی بیٹی کو ذمہ دار ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جب پرویز رشید،طارق فاطمی اور راؤ تحسین میں سے کوئی بھی شخص بکتا نہیں ہے تو پھر پاناما کیس کے شعلوں کو ہوا دی جاتی ہے۔سپریم کورٹ کے ججز نے جن مشرقی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے نواز شریف کی بیٹی کا نام پاناما فیصلے میں شامل نہیں کیا۔ آج جے آئی ٹی غیبی اشاروں پر اس کو طلب کرتی ہے اور دو گھنٹے سے زائد پوچھ گچھ کرتی ہے۔یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ایک باپ اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک کرنے سے پگھل جائے گا اور سویلین بالادستی،خارجہ پالیسی،سی پیک میں ہمارا شیئر،اہم عہدوں پر من پسند افراد کا تقرر سمیت شوکت عزیز یا پھر میر ظفر اللہ خان جمالی جیسا وزیراعظم بن جائے گا۔تو یاد رکھیں کہ یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔بااصول اور باضمیر لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلتے ہیں۔جو شخص 12اکتوبر 1999کو ایک استعفیٰ کو اپنی جان کی قیمت کے مقابلے میں نظر انداز کر دیتا ہے۔ جو مشرف کے بار بار پیغام بھجوانے پر کہتا ہے کہ Resignation, over my dead body۔ آج وہ ان سے خوفزدہ ہو جائے گا۔ ایسا سوچنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں مگر ایک افسوس ضرور ہے کہ جب نواز شریف 2013میں اقتدار میں آئے تو میرے جیسے ناقص العقل لوگ سمجھتے تھے کہ اس بار نواز شریف اکیلا نہیں ہے۔ افتخار چوہدری اور شاہراہ دستور کا ایک مضبوط ادارہ اس کیساتھ ہے لیکن افتخار چوہدری کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سویلین بالادستی کی جنگ میں نواز شریف اکیلا ہے۔ معاملہ پاناما کیس، ڈان لیکس، دھرنے، انتخابی دھاندلی اور بھارت سے تعلقات سے متعلق نہیں ہے بلکہ اصل جنگ سویلین بالادستی کی ہے اور اس جنگ میں ایک شخص تنہا کھڑا ہوا ہے۔
آج اگر نواز شریف کی بیٹی جے آئی ٹی میں پیش ہوسکتی ہے تو پھر بیٹیاں ہر گھر میں موجود ہیں۔جو سلسلہ آپ نے شروع کیا ہے،اس کا اختتام یہاں ہونا ممکن نہیں ہے۔اگر نوازشریف کی نااہلی سے معاملات ختم ہوسکتے ہیں تو کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن شاید نوازشریف کی نااہلی کے بعد اہل بہت ہی کم لوگ رہیں۔
اپنے حصے کی چال تم چل بیٹھے
ہمارے منتظر رہنا کہانی ختم کرنی ہے

 

.

تازہ ترین