• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی ہیرو قوم کی شناخت اور حوالہ ہوتے ہیں۔ دنیا ان کے قد وقامت، افکار اور عمل میں اقوام اور افراد کی شبیہ تلاش کر کے ان کے بارے میں اپنی رائے قائم کرتی ہے اس لئے قومی شخصیات کے افکار و نظریات کا پرچار کر کے ممالک اپنی حکمتِ عملی وضع کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ دنیا ہمیں ہمارے رہنمائوں، شاعروں، فنکاروں اور مصوروں کے آئینے میں دیکھتی ہے۔ ماشاء اللہ ہم پاکستانی شہری اور حکومت بڑی محبت سے قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر عظیم رہنمائوں کے دِن منا کر ان کی فکر کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر فاطمہ جناح کی برسی اور پیدائش کا دن ہر سال رسمی اعلان کے ساتھ طلوع ہو کر غروب ہو جاتا ہے۔ میڈیا آج ’’محترمہ کی فلاں برسی ہے‘‘ کا تذکرہ کر کے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ کسی پلیٹ فارم سے سیمینار، کانفرنس یا مذاکرہ منعقد نہیں ہوتا۔ رسائل سرورق پر محترمہ کی تصویر لگاتے ہیں مگر وہ سچ نہیں لکھتے جو وقت کا تقاضا ہے۔ یقیناً یہ تساہل پسندی نہیں بلکہ ہماری خوفزدہ سوچ اور احساسِ جرم ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں بحیثیت قوم اپنے اُس رویّے پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے جو ہم نے ان کی زندگی کے آخری ادوار میں ان سے روا رکھا تھا اس لئے ہم محترمہ کی زندگی کی کتاب کے اوراق میں جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بند کتاب کا سر ورق دکھا کر سرخرو ہو جاتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ محترمہ فاطمہ جناح کون تھیں اور پھر ان کی سیاسی خدمات پر نظر ڈالنی چاہئے۔ بڑے سیاسی رہنما، جس کو قدم قدم پر سازشوں، الجھنوں اور چیلنجوں کا سامنا ہو، کو ہمہ وقت ایک رفیق اور غمگسار عزیز کی ضرورت ہوتی ہے جو تلخ اوقات میں ڈھارس بندھائے رکھے، مایوسی کی فضا میں گرنے نہ دے، مشکل گھڑی میں درست مشورہ دے اور اپنے ہونے کا احساس دلا کر طاقت کا باعث بنے۔ جی فاطمہ جناح ایسی ہی صاحبِ بصیرت ہستی تھیں جن کی پرعزم رفاقت اور نگہداشت نے ہمارے عظیم قائد اور محسن کے لئے اپنا ہر لمحہ قربان کئے رکھا۔ اپنے بھائی کے ساتھ عظیم مقصد کی لڑی میں بندھی شانہ بشانہ آگے بڑھتی رہی۔ ان کی ذات کا مقصد قائداعظم کی فکر اور اقبال کے خواب کی تعبیر میں مددگار ہونا تھا۔ ان کے ذہن میں زندگی کا کوئی اور دریچہ وا ہی نہ ہو سکا۔ وہ ایک ڈگر پر چلتی رہیں اور سرخرو رہیں۔ وہ صرف ہمدرد بہن نہیں بلکہ قائداعظم کی سیاسی مشیر، سیکرٹری اور محافظ تھیں۔ قائداعظم ہر تقریر اور بیان کا متن پہلے انہیں سناتے، ان سے مشورہ کرتے پھر جاری کرتے۔ گول میز کانفرنس کی ناکامی سے دلبرداشتہ قائد کو واپس لانے میں بھی اُن کا اہم کردار تھا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد طاقت اور اختیار کی بندر بانٹ اور لاقانونیت کے راج کو ضابطے کے تحت لانے کے لئے انہوں نے باقاعدہ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا مگر ہم نے کیا کیا۔ میں نے لفظ ہم اس لئے لکھا ہے کیونکہ بحیثیت قوم ہم ان تمام جرائم میں شریک ہوتے ہیں جن پر خاموش رہ کر آمریت کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ بحیثیت انسان اور عورت ان کی کردار کشی کی۔ انہیں مختلف ناموں سے پکار کر ان کی تضحیک کی صرف انتخاب جیتنے کے لئے غیر اخلاقی طرزِ عمل اپنایا۔ ایک لمحے کے لئے بھی ان کی نسبت کا خیال نہ کیا حالانکہ ان کی تقریریں شائستگی اور جمہوری روایات کی امین تھیں ورنہ یہ جواز پیش نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی طرف سے شروع کی گئی مہم کا جواب دیا گیا تھا۔ اوپر سے لے کر نچلی سطح تک طاقت کا استعمال کر کے انہیں ہرایا اور ملک کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا گیا۔ بھلا کیسے ممکن تھا کہ وہ انتخاب میں کھڑی ہوتیں اور ہار جاتیں۔ لوگ ان کی بے مثل شخصیت، پاکستان سے وابستگی اور ایمانداری سے واقف تھے۔ ان کے لئے جان قربان کر دینے کو تیار تھے مگر صدر کی کرسی کو ہر حال میں اپنانے کے لئے پالیسی سازوں نے ایسا کھیل کھیلا کہ پاکستانی شہری اپنی رائے کے اظہار سے محروم ہو گئے۔ ان کے پاس کوئی چارہ نہ رہا۔ اسی ہزار ممبران پر مشتمل انتخابی ادارہ فیصلہ ساز بن گیا اور باقی تمام عاقل، بالغ، دانش ور مرد و خواتین منہ دیکھتے رہ گئے۔ کڑھنے اور بے بسی کے اسی عمل سے ایک تحریک کو ترغیب ملی اور بنگلہ دیش کا سفر شروع ہوا کیوں کہ بنگلہ دیش کے لوگ فاطمہ جناح سے محبت کرتے تھے۔ جمہوریت کے نام پر گالی گلوچ کے کلچر کی شروعات ہوئی۔ وقت بہت ظالم ہے گزر جاتا ہے۔ قفس میں مقید انسان بھی مر جاتا ہے اور تخت والے بھی اگلے جہان کے سفر کو اپنی طاقت سے مؤخر نہیں کر سکتے سو آج وہ بھی نہیں جنہوں نے قائداعظم کی روح رواں کو مشقِ تنقید بنایا۔ ان کے حوصلوں کو مسمار کرنے کے لئے چالیں چلیں۔ وہ بھی چلی گئی جن کی آنکھوں نے اپنے بھائی کی آخری وقت کسمپرسی دیکھ کر خون کے آنسو بہائے۔ جو آزادی کی جدوجہد میں ساتھیوں کے بدلتے رویوں پر حیران تھیں۔ ایک رات ٹھیک ٹھاک سوئیں اور سیدھی موت کی آغوش میں چلی گئیں۔ گلے پر سرخ نشان بھی دیکھا گیا مگر یہ بات بھی دبا دی گئی۔ ان کی ہار کی طرح ان کی موت بھی ایک معمہ ہے۔ اگر وہ منتخب ہو جاتیں تو یقیناً پاکستان تقسیم نہ ہوتا۔ یہ ملک شائستگی اور رواداری کی مثال ہوتا۔
مگر ہم تو آج بھی کسی جنگل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا رواج نہیں۔ طاقت سے حریف کو نیچا دکھانے کی رسم ہے۔ منطق اور دلیل کی بجائے اونچی آواز اور للکار پسند کی جاتی ہے۔ چلو مان لیا کہ وزیراعظم اور ان کے خاندان پر لگائے گئے الزامات درست ہیں۔ یہ بھی مان لیا جے آئی ٹی نے بغیر کسی تعصب کے غیر جانبداری سے شب و روز کا ہر لمحہ کام کیا، رپورٹ لکھی، ٹائپ کرائی، غلطیاں چیک کیں اور سالوں کا کام چند دنوں میں مکمل کر لیا۔ سوال یہ نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے عہدیدار کا احتساب کر کے دنیا میں اپنی شناخت مجروح کی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ صرف ایک ہی خاندان مشقِ ستم کا نشانہ کیوں۔ باقی سرکاری ملازمین، منصفوں اور سیاستدانوں کے طرزِ زندگی اور آمدنی کے وسائل میں فرق کی طرف کسی کی نظر کیوں نہیں۔ سیاسی نظام اور قانون کو تہس نہس کرنے والے کو کیوں استثنیٰ حاصل ہے۔ اگر شروعات مشرف سے کی جاتی تو شاید آج کوئی سوال نہ اٹھاتا مگر آج ہر جمہوری فکر سے جڑے انسان کی آنکھوں میں حیرانی اور شکوک ہیں۔ کیا اس طرح کے حالات پیدا کر کے ہم خانہ جنگی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے۔ کیا صرف سیاستدانوں کا ہی احتساب ہوتا رہے گا اور اگر سیاستدانوں تک بھی محدود ہے تو دودھ سے دھلا تو کوئی نہیں۔ آمریت کے دور میں درآمد شدہ وزرائے اعظم سے بھی پوچھ گچھ کی جائے اور باقی تمام جماعتوں کے کھاتے بھی کھولے جائیں۔
کچھ لوگوں کا وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ مشکلات میں پھنسے لوگوں کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنا کر اپنی ناآسودہ خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔ ہر جماعت حملہ آور کا روپ دھار کر پوائنٹ ا سکورنگ کیلئے سرگرم ہے۔ آئینہ دیکھنے اور اپنا احتساب کرنیکی کسی کو فرصت ہی نہیں۔ صرف جمع کئے ہوئے پتھر پھینکنے اور دوسروں کا اِمیج لہولہان کرنے میں مصروف ہیں حالانکہ جواز تو یہی ہے کہ پہلا پتھر وہ مارے جو خود ہر حوالے سے تمام بشری خطائوں سے پاک ہو۔

تازہ ترین