• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما لیکس کے حوالے سے جاری تحقیقاتی اور عدالتی عمل خصوصاً جے آئی ٹی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد سیاسی سطح پر بڑھتی ہوئی افراتفری سے جو بے یقینی پھیل رہی ہے زندگی کے ہر شعبے پر اس کے منفی اثرات نمایاں ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کے اندیشے سے معاشی ترقی کا عمل بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ مسلسل شدید مندی کا شکار ہے اور عملاً زندگی کا پورا کاروبار بے اعتمادی سے دوچار ہے۔ اسٹاک مارکیٹ گزشتہ روز بری طرح کریش ہوئی اور ایک ہی دن میں سرمایہ کاروں کے چار کھرب سے زیادہ روپے ڈوب گئے۔ عالمی میڈیا کے تازہ ترین تبصروں میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے طویل بدامنی اور معاشی زبوں حالی کے بعد امن وامان کی بہتر صورت حال اور معیشت کی بحالی دیکھی ہے لیکن پاناما لیکس کے سلسلے میں بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ نے پاکستانی معیشت کو اندازوں سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے نے سرمایہ کاروں میں بے اعتمادی پیدا کردی ہے، اسٹاک ایکسچینج نو سال میں پہلی بار انتہائی مندی کا شکار ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ، واشنگٹن پوسٹ اور خلیج ٹائمز کے مطابق فروری 2009ء کے بعد پہلی بار پاکستان اسٹاک ایکسچینج اتنے بڑے نقصان سے دوچار ہوا ہے کہ انڈیکس چار اعشاریہ سات فی صد پر بند ہوا۔ پاکستان کے سیاسی بحران کی وجہ سے سرمایہ کار 2013ء کے بعد پہلی بار مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز لکھتا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزیراعظم پر مستعفی ہونے کے لئے دباؤ بڑھنے سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر شدید منفی اثرات پڑے ہیں اور وہ پچھلے نو سال کی بدترین صورت حال سے دوچار ہے۔ اخبار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نواز شریف کے مستعفی ہونے سے پاکستان افراتفری اور پرتشدد حالات کا شکار ہو سکتا ہے جبکہ اخبار کے مطابق موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے اپنائی جانے والی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں پچھلے مالی سال میں پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح پانچ اعشاریہ تین فی صد رہی جو پچھلے دس برسوں میں بلند ترین ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر، اخبار دی ٹائمز اور دفاعی جریدے آئی ایچ جینز نے بھی اپنے تبصروں میں یہی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ملکی معیشت کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوگا۔ موجودہ وفاقی حکومت کے اقتصادی حکمت کاروں کی پالیسیوں سے کئی پہلوؤں سے اختلاف یقیناً کیا جاسکتا ہے تاہم ان پالیسیوں کے مثبت نتائج سے انکار بھی ممکن نہیں۔ یہ پالیسیاں اس قدر مستحکم اور پائیدار ہیں کہ چار سال کی تقریباً پوری مدت میں حکومت کے خلاف پہلے انتخابی دھاندلیوں اور پھر پاناما لیکس کے حوالے جاری تحریکوں کے باوجود بین الاقوامی معاشی صورت حال کی نگرانی کرنے والے امریکی ادارے موڈیز نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستانی معیشت کو مستحکم قرار دیتے ہوئے اسے بی تھری کیٹیگری میں رکھا ہے اور مستقبل میں ترقی کی رفتار میں مزید اضافے کی توقع ظاہر کی ہے تاہم یہ انتباہ بھی کیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام ترقی کے اس عمل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ تمام ریاستی اداروں اور سیاسی قوتوں کو قومی معیشت کے لئے ان بڑھتے ہوئے خدشات کا فوری نوٹس لینا چاہئے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جو ملک میں افراتفری اور بے یقینی کا باعث بنیں۔ عدالتی عمل کے حتمی نتیجے تک پہنچنے کا تحمل کے ساتھ انتظار کیا جانا چاہئے اور اس کے نتیجے میں سیاسی سطح پر کوئی تبدیلی ہو تو اس امر کو یقینی بنایا جانا چاہئے کہ موجودہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنایا جائے گا تاکہ سرمایہ کار بے اعتمادی کا شکار نہ ہوں۔ آرمی چیف نے پاک چین اقتصادی راہداری کی ہرصورت میں تکمیل کا عزم ظاہر کرکے اس حوالے سے ایک اطمینان بخش پیش رفت کی ہے اور توقع ہے کہ ملک کی مجموعی فضا اور قومی معیشت پر اس کے اچھے اثرات ہوں گے۔

تازہ ترین