• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک فوج کے ترجمان ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز میجر جنرل آصف غفور نے پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ کمیٹی کی رپورٹ سمیت عوام کے ذہنوں میں الجھائو پیدا کرنے والے کئی دوسرے معاملات پر فوج کا موقف واضح کیا ہے جس سے کیس کے فریقین، سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنمائوں کی جانب سے فوج کے بارے میں پیدا کئے جانے والے ابہامات دور کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ پیغام بھی ذرائع ابلاغ تک پہنچایا کہ فوج ملک میں امن قائم کر رہی ہے پاکستان مستقل استحکام کی جانب گامزن ہے اور مسلح افواج تمام اداروں کے ساتھ مل کر اپنا کام کرتی رہیں گی۔ اتوار کو ایک پریس بریفنگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے حکومت کے خلاف سازش کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاناما لیکس سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی کارکردگی اور رپورٹ سے پاک فوج کا براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی فیصلہ بھی اسی نے کرنا ہے، ٹیم میں شامل آئی ایس آئی اور ایم آئی کا ایک ایک رکن تھا، دونوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر ایمانداری سے اپنا کام کیا، فوج آئین کی عملداری چاہتی ہے اور ہمیں سب سے پہلے ملکی مفاد کو دیکھنا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سیاسی باتیں صرف سیاسی دائرہ اختیار میں ہوتی ہیں۔ جے آئی ٹی کے کام میں فوج کی براہ راست مداخلت نہیں، یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ اس لئے اس پر کوئی بحث نہیں کی جا سکتی یہ کہنا کہ آرمی کسی سازش کا حصہ ہے اس سوال کا جواب دینا بھی نہیں بنتا۔ پاک فوج کے ترجمان کے اس دو ٹوک بیان کے بعد ان حلقوں کے تحفظات دور ہو جانے چاہئیں جو صاف یا ڈھکے چھپے لفظوں میں جے آئی ٹی میں فوج کے دو اہم اداروں کے ارکان کی شمولیت پر اعتراض اور حکومت کے خلاف کسی سازش کے امکان کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں آرمی چیف کا یہ بیان بھی بہت اہم ہے جس میں فوج کے منصبی فرض کی حدود کو واضح کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ وہ تمام قومی اداروں کے ساتھ مل کر اپنا فرض ادا کرتی رہے گی امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے متعلق بھی بعض حلقے ایک عسکری ایجنسی کے کردار پر حرف زنی کرتے رہے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ اس معاملے میں دیگر اداروں نے بھی کردار ادا کیا تھا اور کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنا کی بنیاد پر واپس امریکہ بھیجا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈے کے حوالے سے انہوں نے درست کہا کہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے لیکن کوئی بھی محب وطن پاکستانی ایسی مہم میں حصہ نہیں لے سکتا اس مہم میں وہی لوگ شامل ہیں جو محب وطن نہیں۔ ایسے لوگ غیر ملکی یا دیگر سازشوں کا حصہ ہیں، حکومت ان کے خلاف ملکی قوانین کے تحت کارروائی کر رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی پیک کی سیکورٹی پاک فوج کی ذمہ داری ہے اس منصوبے کو کسی طور ناکام نہیں ہونے دیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے پس پردہ بڑا مقصد یہی ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے اور فوج کو داخلی مسائل میں الجھا کر اس کی توجہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی حفاظت سے ہٹادی جائے عسکری قیادت کو اس کا پوری طرح ادراک ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ اس کا ماسٹر مائنڈ کونسی غیر ملکی قوت ہے۔ مسلح افواج دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے ہر محاذ پر چوکس ہیں ہماری سیاسی قیادت کو بھی ان خطرات کے مقابلے کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنا چاہئے۔ جہاں تک پاناما کیس کا تعلق ہے تو سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر فریقین کے دلائل کی سماعت شروع ہو گئی ہے انہیں اپنی بات کہنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا جو یقیناً آئین قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگا، انتظار کرنا چاہئے اور ملک میں افراتفری اور بے یقینی کی ایسی فضا پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے جس سے دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے۔

تازہ ترین