• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منی ٹریل لائیں مقدمہ ختم، سپریم کورٹ، وزیر اعظم بری الذمہ نہیں سکتے، فلیٹس میں قیام کرتے رہے کہتے ہیں مالک کو نہیں جانتا

Todays Print

اسلام آباد(رپورٹ :رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نےپاناما پیپرز کیس کی سماعت کے دوران قراردیا ہے کہ لندن جائیداد کی منی ٹریل بدستور ایک معمہ ہے، منی ٹریل لائیں تو مقدمہ ختم ہوسکتاہے، وزیراعظم دستاویزات دینے کے بیان سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے، لندن کے فلیٹس میں قیام کرتےرہے اور کہتے ہیں کہ مالک کو نہیںجانتا، جے آئی ٹی رپورٹ سے متعلق فیصلہ عدالت خود کریگی، رپورٹ کاجائزہ لینے کے بعدشواہدپر فیصلہ کیا جائیگا کہ مقدمہ احتساب عدالت کو بھیجا جائے یا وزیر اعظم نواز شریف کیخلاف عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت سے متعلق درخواست پر فیصلہ جاری کیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئےہیں کہ جے آئی ٹی کی تشکیل کا مقصد وزیر اعظم نواز شریف کو الزامات کے حوالے سے صفائی پیش کرنے کا موقع دینا تھا، انہیں چاہیے تھا کہ وہ جے آئی ٹی میں اپنی بیگناہی ثابت کر کے الزامات سے بری الذمہ ہو جاتے،یہ کہنا غلط ہے کہ موقع نہیں دیا گیا، وزیراعظم سمیت سب کو صفائی کا موقع دیا گیا،حقائق چھپائے گئے، جوابات نہیں دیے گئے، کوئی کہتا ہے یاد نہیں، کوئی کہتا ہے کہ اکائونٹنٹ کو پتا ہوگا، جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کی ہیں،جن پر عدالت نے حکم جاری کرنا ہے۔

دوران سماعت جج صاحبان نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے کسی دستاویز کو چیلنج نہیں کیا، بتائیں دستاویزات غلط ہیں یا صحیح، وزیراعظم غیر ملکی کمپنی کے چیئرمین تھے یا نہیں، اقامہ لیا یا نہیں، سعودی عرب میں بنک اکائونٹ تھا یا نہیں۔

جبکہ وزیراعظم کے وکیل نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش شفاف نہیں، سفارتخانے کی تصدیق کے بغیر دستاویزات کو درست نہیں مانا جاسکتا، گواہوں سے جرح کیے بغیر کیسے قبول کیا جاسکتا ہے، جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کو بطورثبوت تسلیم نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس میں مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے شریف خاندان کیخلاف ختم کئے گئے مقدمات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے، رپورٹ کو حتمی شکل دینے سے قبل ہمیں سماعت کا موقع نہیں دیا گیا ،جرح کے بغیر جاری کی گئی یہ رپورٹ یکطرفہ ہے،جسکی بنیاد پرشفاف ٹرائل ممکن نہیں۔و زیر اعظم کے وکیل کے دلائل جاری تھے کہ وقت ختم ہونے پر عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج (بدھ) تک ملتوی کردی۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربرا ہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو مسول علیہ وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل ، خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کا 20 اپریل کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا کہ حکم نامہ پڑھنے کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ فاضل عدالت نے جے آئی ٹی کو کس قسم کی تحقیقات سونپی تھیں، عدالت نے اپنے حکم میں تحقیقات کی سمت کا تعین کرنے کے بعد جے آئی ٹی کو 13 سوالات پر تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ گلف اسٹیل ملز کیسے بنی؟ اور کن وجوہات کی بنا پر فروخت ہوئی؟ پیسہ جدہ، لندن اور قطر کیسے گیا تھا؟انھوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے ساتھ لگائی گئی دستاویزات تصدیق شدہ نہیں، عدالت غیر تصدیق شدہ دستاویزات کی بنیاد پرکیسے فیصلہ سنا سکتی ہے،جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ انکے موکل کی جانب سے اس حوالے سے جمع کرائی گئی درخوا ست میں اس بارے میں کچھ نہیں، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ درخواست میں نہ صرف جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کیا گیا ہے بلکہ اس بارے میں اعتراض بھی اٹھائے گئے ہیں۔

خواجہ حارث نے عدالت کی طرف سے پوچھے گئے 13 سوالات بھی پڑھ کر سنائے، ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سوالات میں نواز شریف سے متعلق تحائف کا ذکر تھا لیکن فاضل عدالت نے نواز شریف کیخلاف کسی مقدمہ کودوبارہ کھولنے کاحکم نہیں دیاتھا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے لندن فلیٹس، قطری خط،بیئررسر ٹیفکیٹس سے متعلق سوالات پوچھے تھے، سپریم کورٹ نے جو سوالات پوچھے تھے انکے جواب مانگے گئے تھے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیا آپ یہ کہناچاہتے ہیں کہ کسی پراپرٹی پرتحقیقات جے ا ٓئی ٹی کا دائرہ کارنہیں تھا؟خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی آئی ٹی نے 13 کے بجائے 15سوالات کر لئے تھے، جو مقدمات ختم ہو گئے تھے انکی بھی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ التوفیق کیس کا فیصلہ ہو چکا ہے، دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بہت سارے معاملات اس کیس میں 13 سوالوں سے مطابقت رکھتے ہیں،معاملات جانچے بغیر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی تھی،لندن پراپرٹی سے متعلق منی ٹریل ایک معمہ ہے،اصل بات تو منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے، لندن فلیٹس کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہو گاکہ پیسہ کہاں سے آیا؟ اور فلیٹس کیسے خریدے گئے تھے؟ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی نے جو بہتر سمجھا اس کی سفارش کر دی ہے، سفارشات پر عمل کرنا ہے یا نہیں اس بات کا فیصلہ عدالت کریگی، جس پرخو اجہ حارث نے کہا کہ 13 سوالات کی روشنی میں حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا،جے آئی ٹی کو مقدمات دوبارہ کھولنے کی سفارش کا اختیار نہ تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کی ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو وزیراعظم کے نامی دار اور زیر کفالت افراد کے اثاثوں کی چھان بین کا بھی حکم دیا تھا اور اس حوالے سے نیب اور ایف آئی اے کے پاس دستیاب شواہد کے ذریعے لندن فلیٹس سے متعلق معاملہ کا جائزہ لینے کو کہا تھا،ایف آئی اے اور نیب کے پاس فلیٹس سے متعلق تمام ریکارڈ موجود تھا، ایف آئی اے کی تحقیقات کو ہائیکورٹ نے منسوخ کر دیا تھا، انکا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو وہ کیس جس کا فیصلہ ہوچکا ہے ، دوبارہ کھولنے کا نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی کسی مزید گواہ سے پوچھ گچھ کیلئے کہا گیا تھا۔

انہوںنے کہا کہ وزیر اعظم نہ تو کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں نہ کوئی تنخواہ وصول کی ہے،جے آئی ٹی کی جانب سے شریف خاندان کی آمدن سے زائد اثاثوں پر سوالات اٹھائے گئے ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید نے ان سے سوال کیا کہ کیا جے آئی ٹی کے پاس ظاہری اثاثوں سے زائد آمدن کا سوال اٹھانے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے عدالتوں سے خارج معاملات کی جانچ پڑتال کی ہے، محض سوالات کی بنا پر حدیبیہ پیپر مل زکیس کو دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا، جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے اگر کسی خفیہ جائیداد کی نشاندہی کی ہے تو کیا یہ غلط ہے؟منی ٹریل لائیں تومقدمہ ختم ہوسکتاہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنالیا، جس پر جسٹس عظمت نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ مزید جائیدا دوں کی نشاندہی جے آئی ٹی کا مینڈیٹ نہیں تھا؟فاضل وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں ایسے مقدمات کا ذکر بھی کیا ہے جو پہلے ہی نمٹائے جاچکے ہیں۔

انہوںنے بتایا کہ حدیبیہ پیپرز ملز کا فیصلہ ہائی کورٹ کرچکی ہے جبکہ التوفیق کیس میں انکے موکل نواز شریف کا نام شامل نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ان سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ پیپر ملز کا کیس دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، تو فاضل وکیل نے جواب دیا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے بہت سے سوالات کا تعلق لندن فلیٹس کی ادائیگی سے نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسول علیان کے تمام اثاثوں کی چھان بین نہیں کی جا سکتی؟ اور جو مقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے ہیں ان 13سوالوں کی بنیاد پر ان کی پڑتال دوبارہ نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے فیصلہ میں لکھا ہواہے کہ اگر ایف آئی اے کے پاس کوئی ثبوت ہوں تو ان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، لندن فلیٹس کے حوالے سے پہلے بھی تحقیقات ہوتی رہی ہیں، یہاں پربہت سے معاملات آپس میں ملے ہوتے ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا اور تحقیقات مکمل ہو نے تک سارے معاملہ کو دیکھنا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ یہ رقم کہاں سے آئی تھی؟ اصل چیز منی ٹریل کا سراغ لگانا ہے، لندن فلیٹس کی منی ٹریل کا جائزہ لینا ہو گا، میری یادداشت کے مطابق لندن فلیٹس پہلے مقد ما ت کا بھی حصہ رہے ہیں، جے آئی ٹی نے تحقیقات کی روشنی میں سفارشات پیش کیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئےکہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو شامل کرنا ہے یا نہیں؟ یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ نے کرنا ہے، عدالت فیصلہ اس وقت کرتی ہے جب حقائق غیر متنازع ہوں، اس مرحلہ پر رپورٹ کے کسی حصہ پر رائے نہیں دے سکتے۔

فاضل وکیل نے کہا کہ ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات ہائی کورٹ نے منسوخ کردی تھیں جبکہ جے آئی ٹی نے آمدن سے زائد اثاثوں کو بھی سوال بنا لیا ہے، جو مقدمات عدالتوں سے ختم ہوچکے ہیں ، جے آئی ٹی نے انکی بھی پڑتال کی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے مقدمات کھولنے کا حکم جاری نہیں کیا تھا، جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ التوفیق کیس پر عدالت کا فیصلہ موجود ہے اور اسحق ڈار کا بیان التوفیق کمپنی سے منسلک ہے، کسی معاملہ کا جائزہ لینا الگ بات ہے اور اس کا ازسرنو تعین کرنا الگ بات ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنی سفارشات میں بند مقدمات کھولنے کا نہیں کہہ سکتی،جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنی تجاویز اور سفارشات دے سکتی تھی، اس نے جو بہتر سمجھا اس کی سفارشات کردی ہیں، ان سفارشات پر عمل کر نے یا نہ کرنے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اور عدالت نے اپنے مرتب سوالوں کے جواب دیکھنے ہیں، سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کا فیصلہ کرنا ہے، جے آئی ٹی نے نہیں کرنا۔فاضل وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رائے کی قانون میں کوئی نظیر موجود نہیں،جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے جے آئی ٹی کی رائے نہیں بلکہ اس کی جانب سے فراہم کئے گئے موادکو دیکھنا ہے۔

 جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کو پوراپورا موقع دیا گیا تھا لیکن انھوں نے کوئی چیز نہیں دی ،جے آئی ٹی نے ان سے لندن فلیٹس کا پوچھا تو انھوں نے کہا معلوم نہیں، شاید حسن نواز اس کامالک ہے،حتیٰ کہ انھوں نے تو اپنے خالو محمد حسین کو بھی پہچاننے سے انکار کیا۔ انہوں نے تمام سوالات کے جوابات نفی میں دیئے ہیں ،شاید ان کی سوچ یہ تھی کہ کچھ تسلیم نہیں کرنا ہے ، کچھ نہیں بتانا ہے،جو بھی کرنا ہے جے آئی ٹی خودہی کرے۔

انہوں نے فاضل وکیل سے سوال کیا کہ جب ان کی جانب سے ہر بات کی ہی تردید ہوتی رہی تو جے آئی ٹی کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے میرے موکل کو کوئی دستاویزات نہیں دکھائی تھی اور کوئی متعلقہ سوال پوچھا ہی نہیں تھا ، میرے موکل سے ایسے سوال بھی پوچھے گئے جن کا ان معاملات سے تعلق ہی نہیں تھا،جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئےکہ آپ کے موکل تو اپنے خالو سے متعلق سوال کا جواب بھی نہیں دے سکے تھے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ میرے موکل نے تمام اثاثے ڈیکلیئر کیے ہیں اور اثاثوں کے بارے میں ہر سوال کا جواب دیا ہے لیکن جے آئی ٹی نے اپنا موقف میرے موکل کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔

انہوںنے کہا کہ میرا موکل اپنے خاندان کے کاروبار سے دور ہے جبکہ 2007 میں جائیداد کی تقسیم میں بھی حصہ نہیں لیا تھا۔ ،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ شریف فیملی آپس میں بہت قریب ہے، ہر چیز کا فیملی ممبران کو معلوم ہوتا ہے، وزیراعظم لندن فلیٹس میں جاتے رہے ہیں لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں کہ فلیٹ کس کے ہیں؟ جن فلیٹوں میں انکے بچے 1993 سے رہ رہے ہیں۔ انہوںنے ان کے بارے میں کہاہے کہ انہیں معلوم نہیں،جس پر فاضل وکیل نے جواب دیا کہ انکے موکل  1985 تک کارو با ر کرتے رہے ہیں، اسکے بعد انکا کاروبار میں کوئی کردار نہیں،انکے تمام اثاثے گوشواروں میں ظاہر ہیں، انکے علاوہ کوئی اثاثے ہیں تو بتائیں، اس پرمیں جواب دوں گا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے استفسار کیا کہ کیانوازشریف ایف زیڈ ای کمپنی کے چیئرمین ہیں یا نہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ایف زیڈ ای کے مالک حسن نواز ہیں، وزیراعظم کے پاس صرف اس کے چیئرمین کا عہدہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ میرے موکل سے ایف زیڈ ای کی ملکیت جے آئی ٹی کو پوچھنا چاہیے تھی،جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی نے نہیں پوچھا تو ہم پوچھ رہے ہیں، ہم جے آئی ٹی کی سفارشات کے پابند نہیں، ہم نظر ثانی درخواست نہیں سن رہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسا ر کیا کہ کیا وزیراعظم نے دبئی میںکام کرنے کیلئےاقامہ لیا تھا؟ توفاضل وکیل نے جواب دیا کہ انہوںنے ایف زیڈ ای کی بنیاد پر 2012 میں اقامہ لیا تھا، لیکن وہ ایف زیڈ ای سے تنخواہ نہیں لیتے تھے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف انداز میں نہیں ہوئی ہیں اسی لئے ہم نے اس پر مختلف قانونی اعتراضات اٹھائے ہیں،جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی پر اعتراض ہیں تو اعترا ضا ت کے ساتھ ثبوت لگائیں، آپ کیلئے دروازے بند نہیں کر رہے، آپ نے اپنے جواب میں کسی دستاویز کی تردید نہیں کی، آپ اپنا جواب ہمار ے پاس دے دیں، آپ جب چاہیں متفرق درخوا ست میں دستاویزات کو چیلنج کرسکتے ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اثاثے آمدن سے زائد ہوں تو بھی صفائی کا موقع ملتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہمیں تو منی ٹریل اور ذرائع آمدن کا پہلے دن سے انتظار ہے اور یہی بات تو ہم ایک سال سے کر رہے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی بنانے کا مقصد یہ تھا کہ اسکے روبرو وزیراعظم اور د یگر مسول علیان آزادی سے اپنا اپنا موقف پیش کرسکیں اور ثبوت دے سکیں، وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ وہ جے آئی ٹی میں ثابت کر کے الزامات سے بری الذمہ ہو جاتے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اثاثوں کو تسلیم کیا گیا ہے، اب دو ہی معاملات ہیں کہ یا تو ہم خود اس مقدمہ کو آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت دیکھیں یا احتساب عدالت کو بھجوادیا جائے۔

تازہ ترین