اسلام آباد( رپورٹ:فخردرانی) ملک کے اعلیٰ قانونی ماہرین کی اکثریت سمجھتی ہے کہ جب تک وزیراعظم کا لندن فلیٹس کی خریداری سے براہ راست تعلق ثابت نہیں ہو جاتا، اس وقت تک ان سے اس حوالے سے کچھ پوچھا نہیں جا سکتا 2004۔تک نوازشریف کے والد میاں محمد شریف خاندان کے سربراہ تھے ایسے میں وہ ایک بڑے کاروباری گروپ کے دہائیوں تک سربراہ بھی رہے جس میں ٹیکسٹائل، شوگر اوراسٹیل کے شعبے بھی شامل تھے۔جن کے ذریعے لندن یا دنیا میں کہیں بھی فلیٹس بآسانی خریدے جا سکتے تھے۔
بعض قانونی ماہر ین کی رائے میں یہ کیس ارسلان افتخار کیس سے مختلف نہیں ہے۔ اگر باپ اپنے بیٹے کے اقدام سے خود کو علیحدہ کرلے تو اس کیس میں بھی ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ان کے خیال میں دونوں کیسز کو ایک ہی عدسے سے دیکھنا چاہئے کیونکہ بیٹے کے کاموں کا باپ کو ذمہ دار قرارنہیں دیا جاسکتا۔ جبکہ دیگر آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر وزیراعظم اور ان کا خاندان لندن فلیٹس کامنی ٹریل دینے میں ناکام رہا تو انہیں نااہل قراردیا جاسکتا ہے۔
سینئر قانون دان عابد حسن منٹو کاکہنا ہے کہ جج صاحبان کے ریمارکس بطور فیصلہ نہیں لئے جاسکتے۔ ریمارکس تو روز بدلتے رہتے ہیں۔ سادہ سے الفاظ میں بیٹوں کی غلط کاریوں پر باپ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ تاہم یہ ایک مختلف اور مکمل پیچیدہ مقدمہ ہے۔
عدالت عظمیٰ کو دستیاب شہادتوں کی بنیاد پر جائزہ لے کر فیصلہ دینا ہے۔ سینئر وکیل اکرم شیخ نے کہاکہ لندن فلیٹس کا براہ راست تعلق ثابت کئے بغیر عدالت وزیراعظم کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی۔ا گر کوئی تعلق نہیں بنتا تو خلاف بھی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔ منی ٹریل کی توثیق کے لئے قطری شہزادے کا بیا ن ریکارڈ کرنا جے آئی ٹی کی ذمہ داری تھی جسے نظرانداز کیاگیا۔اکرم شیخ نے کہاکہ نوازشریف کے بچے 25-20سال سے کاروبار کررہے اور آزاد و خود مختار ہیں تب بیٹوں کا بوجھ باپ پر کیسے ڈالا جاسکتا ہے۔
جسٹس (ر) وجہیہ الدین احمد کامؤقف ہے کہ وزیراعظم کا خاندان لندن فلیٹس کی خریداری کیلئے ذرائع فنڈز قائم کرنے میں ناکام رہتا ہے تو پھروزیراعظم کو بھی ملوث قراردیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جج صاحبان اپنےریمارکس کے ذریعہ وزیراعظم کے خاندان کو صرف یہ قائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ اگر انہوں نے منی ٹریل ثابت نہ کیا تو وزیر اعظم خود بھی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ عدالت عظمیٰ یہ مقدمہ احتساب عدالت کے حوالے بھی کرسکتی ہے۔ لیکن اگر لندن فلیٹس کا تعلق قائم نہ ہوا تو عدالت خود ہی انہیں رکن قومی اسمبلی کی حیثیت سے ڈی نو ٹیفائی کرسکتی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا بالکل ہی مختلف مؤقف ہے۔ ان کے خیال میں باپ کو بیٹوں کی غلط کاریوں کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے بھی اس بارے میں ارسلان افتخار کیس کا حوالہ دیا۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ علیحدہ رکھتے ہوئے واضح طور پر کہاتھا کہ باپ کا بیٹے کے اقدامات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ عملدرآمد بنچ تو یہ کیس سن سکتابھی نہیں جس کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔
سینئر وکیل بابر ستار نے کہاکہ سپریم کورٹ کو مذکورہ پراپرٹی کا عنوان وزیراعظم سے جوڑنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ یہ پیچیدہ قانونی بحث ہے کہ بیٹے کی غلطی کا باپ کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتاہے یا نہیں۔یہ عدالت ہی طے کر سکتی ہے۔ سینئر وکیل احمد اویس نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے کہاکہ پوری پراپرٹی نوازشریف کی ہے۔ اگر نوازشریف اوران کے خاندان نے منی ٹریل ثابت نہیں کیا تو وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔