• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس :عدالتی فیصلے کا تحمل سے انتظار کیا جائے

پاناما لیکس کے نتیجے میں دنیا کے کئی ملکوں کی حکمراں شخصیات متاثر ہوئیں لیکن پاکستان میں حکمراں خاندان کے احتساب کے حوالے سے اس معاملے میں ہونے والی پیش رفت بلاشبہ بے مثال اور تاریخ ساز ہے۔ تقریباً پونے تین سو دنوں تک جاری رہنے والے اس مقدمے میں تمام فریقوں کو اپنا موقف پیش کرنے کے تمام مواقع فراہم کیے گئے، عدالت عظمیٰ نے متعلقہ ریاستی اداروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے کر معاملے کے تمام پہلوئوں کو کھنگالنے کا بھرپور اہتمام کیا۔ کھلی عدالت میں مقدمہ چلا کر اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ قوم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ رہے اور شفافیت کسی بھی درجے میں متاثر نہ ہو۔ وزیراعظم سمیت حکمراں خاندان کے تمام متعلقہ افراد نے بھی عدالت سے پورا تعاون کیا اور کئی سابق حکمرانوں کی طرح پیشی سے بچنے کے لئے کسی قسم کی حیلہ سازی سے کام نہیں لیا۔ عدالتی حکم کے مطابق تشکیل پانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کی دسویں جلد کے سوا تمام شواہد اور دستاویزات فوری طور پر جاری کر دی گئیں اور انٹرنیٹ کے توسط سے ہر شخص کے لیے ان تک رسائی ممکن بنائی گئی جبکہ عدالت کی جانب سے دسویں جلد کا جائزہ بھی لیا جا چکا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ فیصلے میں تمام فریقوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، وزیراعظم کی نااہلی کے معاملے کا جائزہ بھی لیا جائے گا اور ان پر مقدمہ قائم ہوا تو منصفانہ ٹرائل کا پورا موقع دیا جائے گا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں ملک کی تاریخ کے اس انتہائی اہم اور تاریخ ساز مقدمے کی انصاف کے تمام تقاضوں کی پابندی کے مکمل اہتمام کے ساتھ سماعت مکمل ہونے اور فیصلہ محفوظ کر لئے جانے کے بعد اب تمام سیاسی قوتوں اور پوری قوم کو تحمل کے ساتھ عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہئے۔ مقدمے کی سماعت کی پوری مدت کے دوران ملک کی سیاسی قوتوں اور بیشتر ذرائع ابلاغ کی جانب سے جس طرح اپنی مرضی کے فیصلے کے حوالے سے مسلسل قیاس آرائیاں جاری رہیں، اور سیاسی رہنمائوں نے مخالف فریق کے لیے جس قدراشتعال انگیز اور توہین آمیز بیان بازی جاری رکھی، اسے کسی بھی طور اخلاق اور تہذیب کا کوئی اچھا مظاہرہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے نتیجے میں قومی سطح پر بے یقینی بڑھی اور زندگی کے تمام شعبوں بالخصوص معیشت پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے جس کا اندازہ اسٹاک مارکیٹ کی صورت حال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ حکمراں جماعت کی یہ وضاحت بہرحال اطمینان بخش ہے کہ فیصلہ وزیراعظم کے خلاف آنے کی صورت میں بھی قبول کیا جائے گا اور کسی احتجاجی تحریک کے بجائے ان آئینی اور قانونی راستوں کو اختیار کیا جائے گا جن کی گنجائش موجود ہو گی۔ عدالتی فیصلہ خواہ کسی کے بھی حق میں اور کسی کے بھی خلاف ہو حکمراں جماعت کو اپنی اس یقین دہانی پر عمل درآمد کا مکمل اہتمام کرنا چاہئے جبکہ اس کے سیاسی مخالفین کو بھی ہر صورت میں آئینی اور قانونی حدود کی پابندی کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ ملک کسی بحرانی کیفیت سے دوچار نہ ہو اور حکمرانوں کے احتساب کا یہ تاریخ ساز مرحلہ سلامتی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچے۔ علاوہ ازیں ملک سے ہر قسم کی کرپشن کے مستقل خاتمے کے لیے احتساب کے اس عمل کو آگے بڑھایا جانا چاہئے، پاناما لیکس میں جن مزید اہم پاکستانی سیاسی و کاروباری شخصیات نیز سول اور فوجی بیورو کریسی سے وابستہ افراد کے نام آئے ہیں اور سوئس بینکوں میں جن لوگوں نے پاکستان سے لوٹی گئی قومی دولت چھپا رکھی ہے جس کی مالیت دو سو ارب ڈالر تک بتائی جاتی ہے، ان سب کے معاملات کی تحقیقات کا اہتمام کیا جانا چاہئے اور ضروری ہو تو عدلیہ کو اس معاملے میں ازخود کارروائی کرنی چاہئے تاکہ کرپشن کے جان لیوا روگ سے یہ قوم ہمیشہ کے لیے نجات پاسکے۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ تمام ریاستی اداروں اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے یکساں، بے لاگ اور بااختیار نظام احتساب وضع کیا جائے، ملک کی عدلیہ اور مقننہ کو اس سمت میں جلد ازجلد پیش رفت کرنی چاہئے۔

تازہ ترین