• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتہ نہیں ان لوگوں کو نرم مزاج کہا جائے یا سخت مزاج؟ کیونکہ جب تک یہ لوگ گرفتار نہیں ہوتے، صحت مند ہوتے ہیں جونہی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو بیماریاں ان پر حملہ آور ہو جاتی ہیں، پرانی باتوں کو نظر انداز کر بھی دیا جائے تو حال ہی میں گرفتار ہونے والے ظفر حجازی کا معاملہ آپ کےسامنے ہے۔ جن پر گرفتاری کے دن ہی بیماریاں نازل ہو گئی تھیں، پتہ نہیں ان خاص لوگوں کی بیماریاں گرفتاری کا انتظار کررہی ہوتی ہیں، ظفر حجازی سے پہلے ڈاکٹر عاصم حسین کے ساتھ بھی بیماریوں نے یہی رویہ رکھا، جونہی ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے بیماریاں ان پرحملہ آور ہوگئیں۔ میرے ایک دوست نے ایک روز بیماریوں سے پوچھا کہ ’’....اے بیماریو!تم ان لوگوں کو گرفتاری کے بعد ہی کیوں گھیرتی ہو ....‘‘ اس سوال کا سن کر بیماریوں نے جواب دیا ’’....حضور والا! آپ بڑے بھولے بادشاہ ہیں، آپ کو نہیںپتہ کہ ظفر حجازی ہو یا ڈاکٹر عاصم، یہ لوگ گرفتاری سے پہلے بڑے طاقتور ہوتے ہیں، ہم بیماریاں، بے چاریاں طاقتوروں کے قریب بھی نہیں جاتیں، لگتا ہے آپ نے کبھی کسی طاقتور کو نہیں دیکھا، ان طاقتور لوگوں کو آپ نہیں جانتے، ان کے گرفتار ہوتے ہی ہسپتالوں کے وی آئی پی کمرے انتظار شروع کردیتے ہیں، لگتا ہے آپ گاڈ فادر کی دنیا سے واقف نہیں ہیں، ہمیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو مافیاز کا کچھ پتہ نہیں، ہم بیماریاں ضرور ہیں مگر ہم پاگل نہیں ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ کس وقت کون کمزور ہوتا ہے کیونکہ ہم نے تو صرف کمزوروں ہی کو گھیرنا ہوتا ہے، مثلاً اس سال کئی طاقتور لوگ کمزور ہونے والے ہیں، دیکھ لینا، جونہی یہ لوگ گرفتار ہوں گے، ہم فوراً انہیں گھیر لیں گی، آپ جیسے سادہ آدمی نہیں سمجھتے، سیانے بندے کہتے ہیں، بیماری کا ایک وقت ہوتا ہے، ویسے ہم آپ کو بتا دیں کہ اس سال بہت سے لوگ گرفتاریوں کے بعد بیمار ہونے والے ہیں، ایسے ایسے لوگ جو کبھی بیمار ہوئے ہی نہیں، اب ہمارا پروگرام یہی ہے کہ گرفتار ہوتے ہی ان کو ’’لمے پا لیئے‘‘ یعنی لٹا دیں مگر بستر پر، آپ کو تو پتہ ہے کہ جب ہم یہ ارادہ کرلیں کہ اب کسی نہ کسی کو گھیرنا ہے تو پھر ہم گھیر ہی لیتی ہیں بس ہمیں گرفتاری کا انتظار ہوتا ہے، ہمارا اصول ہے کہ بیماری بشرط گرفتاری....‘‘
ابھی پاناما کیس حل نہیں ہوا کہ اقامہ کا ہنگامہ سامنے آگیا ہے، پاناما کیس کا فیصلہ اگر آج جمعے کو نہ آیا تو پھر گیارہ اگست کے بعد آئے گا مگر یہ جو نیا ’’کھاتہ‘‘ کھل گیا ہے اس کا کیا کیا جائے، وزیراعظم نوازشریف سمیت تین اہم وفاقی وزراء کے اقامے سامنےآگئے ہیں، وزراء نے الیکشن کمیشن کو جمع کروائے گئے کاغذات میں اقاموں کا تذکرہ ہی نہیں کیا، اقامہ ریفرنس سپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیا گیا ہے مگر لگتا ہے کہ ماضی کی طرح اقامہ ریفرنس کو سپیکر کے گھر سے خیر کی توقع نہیں، پتہ نہیں لوگ کیوں اقامہ ہولڈروں کے پیچھے پڑ گئے ہیں، آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہمارے پیارے وزراء ذرا غریب ہیں اس لئے وہ غربت کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ وزارت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی عرب ملک میں ملازمت بھی کریں، ویسے تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک غریب ملک کے وزراء بیرون ملک نوکری نہ کریں تو کیا کریں، ان بے چاروں نے کئی نہیں تو کم از کم ’’دو دو گھروں‘‘ کو چلانا ہوتا ہے، مجھے لگتا ہے پاکستانی وزارت ایک گھر کا خرچہ پورا کرتی ہے جبکہ دوسرے گھر کے خرچے کیلئے بیرون ملک ملازمت کی جاتی ہے، باقی جو لوگ کہتے ہیں کہ وزراء نے ایسا کر کے بددیانتی کی، ان کی اپنی مرضی ہے، محنت مزدوری کرنا کونسا جرم ہے؟ دو گھروں سے مجھے یاد آیا کہ جو لوگ خفیہ شادیاں ظاہر نہیں کرتے، انہیں کیا کرنا چاہئے، اس بات کا بڑا سادہ سا جواب ہے کہ ان کی بیویاں ثمینہ خاور حیات جیسی ہونی چاہئیں جو اپنے خاوندوں کو خوش دلی سے شادیوں کی اجازت دیں۔ میرے دوست بودی شاہ تو ویسے بھی کہتے ہیں کہ اسلامی باتوں پر عمل کرتے ہوئے زیادہ شادیاں کرنی چاہئیں، بودی شاہ کے بقول اقامہ رکھنا شاید اتنا بڑا جرم نہیں جتنا بڑا جرم اقامہ چھپانا ہے۔ یہ چھپانا ہی بددیانتی ہے۔
خواتین و حضرات! جب تک مافیاز کا راج رہے گا اس وقت تک معاشرے میں بیماریاں رہیں گی، کیا آپ نے تازہ خبر نہیں سنی، ملتان کی پنچایت نے کیا کیا؟ ایسا ہی فیصلہ پندرہ سال پہلے مختاراں مائی کے ساتھ کیا گیا تھا، کیا یہ ظلم پر مبنی پنچایتی فیصلے ختم ہوسکیں گے؟ کیا یہ معاشرے کی بیماریاں نہیں ہیں؟ ایک اور خبر کے مطابق فیصل آباد میں پانی کے تنازع پر سات افراد قتل ہوگئے ہیں، کیا پانی کے تنازع حکومت حل نہیں کرسکتی، کیا حکومت پنجاب کا محکمہ آب پاشی سو رہا ہے، کیا وہ پانی کی تقسیم کو درست نہیں رکھ سکتا، مگر یہ سوال کس سے کیا جائے، ملک میں اس وقت کم از کم بیس اہم ترین ادارے سربراہوں کے بغیر کام کر رہے ہیں، ان اداروں کیلئے شاید کوئی اپنا بندہ نہیں ملا؟ اور تو اور اسلامی نظریاتی کونسل چیئرمین کے بغیر کام کررہی ہے، یہ آئینی ادارہ ہے مگر اس کا کوئی چیئرمین نہیں، چیئرمین تو کیا اس کے ممبران کی تعداد بھی مکمل نہیں، اس کی جانب توجہ کون دے گا، کم از کم وہ تو نہیں دے سکتے جو اپنا آپ بچانے میں لگے ہوئے ہیں، بقول ریحانہ قمر؎
کبھی کبھی وہ بٹھاتا ہے مسند دل پر
کبھی کبھی مرا منصب بحال کرتا ہے

تازہ ترین