• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ کے سابقہ احکامات، آرٹیکل 62-63 میں ترمیم یا خاتمہ ممکن نہیں

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) نواز شریف کو نا اہل قرار دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) جارحانہ انداز سے پاکستان کے آئین سے آرٹیکل 62-63 کی اسلامی شقوں کو ختم کرنے کے ایجنڈے پر عمل کر رہی ہے لیکن قانوناً ایسا ممکن نہیں کیونکہ ماضی میں سپریم کورٹ کچھ ایسے فیصلے جاری کر چکی ہے جن کی وجہ سے ان شقوں میں کوئی ترمیم کی جا سکتی ہے اور نہ ہی انہیں ختم کیا جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ پہلے ہی آئین کی اسلامی شقوں کو دستور کی بنیادی خصوصیت قرار دے چکی ہے جنہیں پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت کے ساتھ بھی ختم یا ان میں ترمیم نہیں کر سکتی۔

سپریم کورٹ نے مختلف فیصلوں میں آئین کی بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا ہے جن میں دستور کی اسلامی شقیں شامل ہیں۔ محمود خان اچکزئی اور دیگر بنام وفاق پاکستان اور دیگر (پی ایل ڈی 1997 ایس سی 426ٌ کیس میں سپریم کورٹ نے اس بات پر بحث کی تھی کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ کیا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اگرچہ یہ سوال علمی نوعیت کا ہے جس کا جواب مستند انداز سے حتمی طور پر نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئین کی نمایاں خصوصیات کی عکاسی قرار دادِ مقاصد میں دیکھی جا سکتی ہے جو آئین کے آرٹیکل 2 اے کا حصہ ہے جسے 8ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 1956، 1962 اور 1973 میں تیار اور نافذ کیے جانے والے دستور میں قراردادِ مقاصد کو بطور ابتدائیہ شامل کیا گیا تھا۔

اس قرارداد کے مسودے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حکمرانی کیلئے جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے اسلامی شقوں کے ساتھ وفاقیت اور پارلیمانی طرز حکومت شامل ہے۔ ظفر علی شاہ کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ پاکستان کا آئین ملک کا سب سے بڑا قانون ہے، اس کی بنیادی خصوصیات میں آزاد عدلیہ، اسلامی شقوں کے ساتھ ملا کر وفاقیت اور پارلیمانی طرز حکومت کے قوانین شامل ہیں جن میں پارلیمنٹ بھی ترمیم نہیں کر سکتی۔ آئین کی ان بنیادی خصوصیات کی اہمیت کی روشنی میں سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو آئین کی کسی بھی بنیادی خصوصیت میں تبدیلی سے روک دیا تھا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ آئین کی بنیادی خصوصیات، آزاد عدلیہ، وفاقیت، اسلامی شقوں کے ساتھ پارلیمنٹ طرز حکومت، میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے۔ چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کے اختیارات دینے کے ایشو پر بحث کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کے اختیارات دیئے جا سکتے ہیں یا نہیں۔

مسٹر خالد انور نے اس بات پر زور دیا کہ اگر آرمی ایکشن کو نظر انداز یا جائز قرار دیا جائے تو عدالت مختصراً اور جامع انداز سے یہ بتا دے کہ چیف ایگزیکٹو کے پاس آئین میں ترمیم کے اختیارات ہیں یا نہیں اور اگر اختیارات ہیں تو کس حد تک۔ انہوں نے کہا کہ پہیل مثال کے طور پر چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کے اختیارات نہیں دیئے جانے چاہئیں اور بیگم نصرت بھٹو کیس (سپرا) کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔

اگر عدالت بیگم بھٹو کیس (سپرا) کے ارشادات پر عمل کرے تو چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کے اختیارات کے حوالے سے مخصوص انداز سے بیان جاری کیا جائے اور جن موضوعات پر کبھی بحث نہیں کی گئی ان پر بھی خصوصاً بحث کی جائے۔ مسٹر شریف الدین پیرزادہ نے دلیل دی کہ ایک مرتہ اگر ماور ائے آئین اقدامات کے ذریعے فوج کے اقدامات کو جائز قرار دیدیا گیا تو چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کے اختیارات بھی دیئے جائیں۔ اسی رائے کا اظہار فاضل اٹارنی جنرل ڈاکٹر فاروق حسن نے بھی کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس رائے کے حامی ہیں کہ اگر پارلیمنٹ آئین کی بنیادی خصوصیات میں ترمیم نہیں کر سکتی، جیسا کہ اس عدالت نے اچکزئی کیس میں قرار دیا تھا، تو چیف ایگزیکٹو کو بھی ایسا کوئی اختیار نہیں دینا چاہئے جو اپنے طور پر اس قدر بڑا ہو کہ پارلیمنٹ بھی اسے استعمال نہ کرسکے۔ آئین میں ترمیم کیلئے چیف ایگزیکٹو کو بھرپور اختیارات نہیں دیئے جا سکتے حتیٰ کہ یہ اقدام نظریہ ضرورت کے عبوری دور میں بھی نہیں کیا جا سکتا، ہم پہلے ہی واضح الفاظ میں اپنے شارٹ آرڈر میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کا آئین ملک کا سب سے بڑا قانون ہے اور اس کی بنیادی خصوصیات میں عدلیہ کی آزادی، وفاقیت اور اسلامی شقوں کے ساتھ ملا کر وفاقی طرز حکمرانی شامل ہیں جنہیں پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ نتیجتاً، چیف ایگزیکٹو کو آئین میں ترمیم کے اختیارات دینے کے حوالے سے ہم اپنے مختصر فیصلے میں طے کر چکے ہیں۔

تازہ ترین