کراچی (رپورٹ / سید عارفین ) شہر میں انصار الشریعہ پاکستان کیخلاف ہونے کارروائیوں کے سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دانش رشید نامی نوجوان کو حراست میں لیا ہے۔ دانش رشیدانصار الشریعہ پاکستان کا اہم رکن اور برطانوی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہے۔ دانش رشید کے والد کا نام ڈاکٹر عبدالرشید ہے جو جامعہ کراچی میں اسلامک اسٹڈیز فیکلٹی کے ڈین رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالرشید پر کراچی یونیورسٹی کی کلیہ معارف اسلامی کے ڈین اورمقتول پروفیسر شکیل اوج کے خلاف مہم چلانے کاالزام تھا۔اپنے قتل سے دو سال قبل پروفیسر شکیل اوج نے 19؍ ستمبر2012ء کو اس وقت کے جامعہ کراچی کے وائس چانسلرڈاکٹرقیصر کو ایک درخواست جمع کرائی۔ درخواست میں پروفیسر شکیل اوج نے مؤقف اختیار کیاتھا کہ ان کے خلاف ایک فتوی تقسیم کیا جارہا ہے جس میں انہیں دائرہ اسلام سے خارج اور واجب القتل قرار دیا جارہاہے۔ پروفیسر شکیل اوج کے مطابق یہ فتوی ان کی فیکلٹی کے کچھ اساتذہ کی جانب سے پھیلایا جارہا ہے اوراس کے ساتھ ایک ایس ایم ایس بھی بھیجا جارہا ہے جس میں درج ہے ’گستاخ رسول ڈاکٹر شکیل اوج کی سزا، سر تن سے جدا‘۔
پروفیسر شکیل اوج کی درخواست میں درج تھا کہ اگروہ قتل کردیئے جائیں تو اس کا ذمہ دار ڈاکٹر عبدالرشید اور ان کے دیگر ساتھیوں کو قرار دیا جائے ۔درخواست میں انہوں نے وہ موبائل فون نمبر ز بھی درج کئے جس سے اس قسم کے نفرت آمیز پیغامات بھیجے جارہے تھے۔
15؍ اکتوبر 2012ء کو پروفیسر شکیل اوج نے اسی نوعیت کی ایک اور درخواست ایک بار پھر جامعہ کراچی کے وائس چانسلر کو جمع کرائی۔ دونوں درخواستوں میں پروفیسر شکیل اوج نے مؤقف اختیار کیا کہ جامعہ کراچی کو ان لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرانی چاہیے جو لوگوں کو ان کے قتل پر اُکسا رہے ہیں تاہم کراچی یونیورسٹی کی اس وقت کی انتظامیہ نے پروفیسر شکیل اوج کی بات پر کان نہیں دھرے جس کے بعد 5؍ نومبر 2012ء کو پروفیسرشکیل اوج نے اپنی ہی مدعیت میں ڈاکٹر عبدالرشید اور دیگر کیخلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
نامزد تمام افراد کوگرفتار کرلیا گیا ۔ کیس چلا اور نامزد ملزمان گرفتار کرلئے گئے مگر پہلے یہ افراد ضمانت پر رہا ہوگئے اور بعد ازاں ان کو ثبوت نہ ملنے پر بری کردیا گیا تھا۔