• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قائد اعظم کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں لکھی جارہی ہیں جو حقائق کے خلاف ہیں۔ اس سے قبل کہ انہیں سند کی حیثیت حاصل ہوئے ان کی وضاحت ضروری ہے لیکن ان شاءاللہ پھر کبھی۔ آج میں جس موضوع پر لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں اس پر آج کل جذباتی ردعمل کا راج ہے لیکن تاریخ و سیاست کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ ہے اس پر ذاتی پسند نا پسند ا ور جذبات سے ماورا ہو کر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ قدرتی بات ہے کہ جب کوئی اہم اور تاریخ ساز پیش رفت ہوتی ہے تو اس کا تجزیہ کرنے والے اور اس پر رائے دینے والے دو حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ ایک گروہ ہوتا ہے حامیوں کا اور دوسرا مخالفوں کا۔ دلائل سے بات دست و گریباں تک بھی پہنچ جاتی ہے اور معاشرے یا سوسائٹی کا مزاج بھی جذباتی گرمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس جذباتی اور متحارب فضا میں کتابی رائے دینے والے طبقے کی آواز شور و غل اور ہنگاموں میں دب کر رہ جاتی ہے۔ میرے مشاہدے کے مطابق یہ صورتحال یا حادثہ عام طور پر نیم خواندہ اور جمہوریت کے حوالے سے نوخیز و نابالغ معاشروں میں ہوتا ہے جہاں’’دلیل‘‘پر جذبات غالب رہتے ہیں اور توازن اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔ سیاست میں پسند و ناپسند، وابستگی، مفاد پرستی اور گروہ بندی قابل فہم حقیقت ہے لیکن جمہوری طور پر نابالغ معاشروں میں حب الوطنی کے تقاضوں سے ماورا وفاداری بھی دیکھنے میں آتی ہے جو غیر پختہ رائے عامہ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس طرح ذاتی مفادات کے دفاع کے لئے ضمیر، زمین، قلم اور زبان گروی رکھ دینا بھی ترقی پذیر معاشروں کی خصوصیت ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کی جمہوریت کے حوالے سے سیاسی گروہ بندی، دھڑے بازی، نظریاتی تقسیم، نفرت اور جذبات کے نتیجے میں لڑائی مارکٹائی پر نظر ڈالیں تو بعض غیر ملکی مصنفین کی یہ رائے قابل غور لگتی ہے کہ گرم ممالک کے مزاج کو پارلیمانی جمہوریت راس نہیں آتی۔ ذاتی طور پر میں اس نظریے کا کبھی حامی یا حمایتی نہیں رہا کیونکہ میں اس امر میں یقین رکھتا ہوں کہ موجودہ آزادی اظہار، سیٹلائٹ، ٹی وی چینلز اور’’گلوبل ویلج‘‘ کلچر کے سبب پارلیمانی جمہوریت صرف ٹھنڈے اور یورپی ممالک کی اجارہ داری نہیں رہی بلکہ سب معاشروں کی ضرورت بن گئی ہے۔ نمایاں فرق صرف اتنا سا ہے کہ جن ممالک میں جمہوری نظام صدیوں سے رائج ہے وہاں اس حوالے سے نہ صرف رائے عامہ پختہ ہوچکی ہے بلکہ ایسی روایات بھی پروان چڑھ چکی ہیں جو تحریری آئین کا حصہ نہ ہونے کے باوجود نظام کی مضبوطی کی ضمانت دیتی ہیں، خاص طور پر وہ روایات جو احتساب اور جوابدہی کے نظام کو تقویت دیتی اور رائے دہندگان کی خواہشات کی نمائندگی کرتی ہیں۔
کتابی بات قدرے طویل ہوگئی۔ جمہوریت کے حوالے سے یہ تمہید ضروری تھی کیونکہ آج کل بعض قدرآور دانشور اور لکھاری پاکستانی پارلیمانی جمہوریت بلکہ جمہوریت کی کامیابی پر شکوک و شہبات کا اظہار کررہے ہیں۔ انتخابی قوانین میں تبدیلی کرکے پارلیمنٹ نے کسی بھی نااہل قرار دئیے گئے شخص کو پارٹی کی رکنیت یا قیادت کی اجازت دے دی ہے، یہ بل جس طریقے سے سینیٹ سے پاس کروایا گیا اس پر بحث جاری ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ بل سینیٹ سے ایک ووٹ کی اکثریت سے پاس ہو کر قومی اسمبلی کی منظوری کے بعد قانون بن چکا ہے۔آپ اس پر ہزار اعتراضات کریں اس میں لاکھ نقائص نکالیں لیکن اب یہ بل قانون بن چکا ہے اور اس قانون کے تحت میاں نواز شریف مسلم لیگ(ن) کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ بحث برائے بحث سے دامن بچاتے ہوئے ہمیں یہ سوچنا پڑے گا اور فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کیا پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے یا نہیں، کیا پارلیمنٹ کو اکثریتی ووٹ سے قانون سازی کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ ہم پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین پہ تنقید کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ہمارا حق ہے لیکن انہیں خلاف آئین یا آئین کی روح سے متصادم قرار دینے کا اختیار صرف عدلیہ کو ہے۔ اسی بحث سے یہ نکتہ بھی جنم لیتا ہے کہ ہم آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں، اگر ہم آئین کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کو برداشت کرنا پڑے گا چاہے ان سے ہمارے جذبات، توقعات یا مفادات کا خون ہوتا ہو۔ آپ کہتے ہیں کہ ایک نااہل شخص کو پارٹی قائد کیسے بنایا جاسکتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے یہ بند دروازہ کھول دیا ہے اور اب اسے عوام ہی ووٹ کی طاقت سے دوبارہ بند کرسکتے ہیں۔ جمہوریت کی روح عوام کی طاقت ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ عوام طاقت و اختیار کا سرچشمہ ہیں۔ آپ کی ذاتی نگاہ یا رائے کے مطابق اکثریت کا فیصلہ غلط بھی ہو تو جمہوری برداشت کا تقاضا ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔ دراصل برداشت اور احتساب ہی جمہوریت کی روح ہیں اور برداشت ہی اس کی کامیابی کی ضمانت دیتی ہے۔ پڑھے لکھے معاشروں میں جمہوریت نے جن روایات کو فروغ دیا ہے بلکہ پروان چڑھایا ہے ان میں احتساب اور برداشت سرفہرست ہیں اور یہی دو روایات ان معاشروں میں جمہوریت کی کامیابی کا بڑا سبب ہیں۔ ہم بھی جب تک ان دو اصولوں اور ذہنی رویوں کو پروان نہیں چڑھاتے اس وقت تک جمہوریت کی جڑیں گہری نہیں ہوں گی اور اسی طرح کی گالی گلوچ، ہنگامے اور جذباتی ردعمل کے مناظر ہماری تواضع کرتے رہیں گے۔ میرے مطالعے کا نچوڑ یہ ہے کہ ان فکری رویوں اور روایات کو سیاسی پارٹیاں اور سیاسی قائدین پروان چڑھاتے اور فروغ دیتے ہیں۔ جمہوری طرز سوچ کو مضبوط بنانا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی قائدین اور جماعتیں سیاسی بلوغت کا مظاہرہ نہیں کررہی اور نہ ہی اس ضمن میں میڈیا اپنا کردار سرانجام دے رہا ہے اس لئے ہر طرف خلفشار اور ہیجان نظر آتا ہے۔
اگر صحیح معنوں میں آپ جمہوری روایات اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں تو برداشت اور وسعت قلب کا مظاہرہ کیجئے اور میاں نواز شریف کے بطور صدر مسلم لیگ(ن) انتخاب کو قبول کرلیجئے۔ اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی آپ کا حق ہے لیکن اسے ذاتی انا کا مسئلہ بنانا غیر مناسب اور غیر جمہوری سوچ کا شاخسانہ لگتا ہے۔ جمہوریت سب کو ساتھ لے کر چلنے اور برداشت کرنے کا نام ہے۔ قومی سطح کے لیڈروں کو قومی دھارے میں رکھنا ہی قومی مفاد میں ہوتا ہے۔ جب تک عدالتی عمل میاں نواز شریف کو کرپشن اور منی لانڈرنگ کا مرتکب قرار دے کر سزا نہ دے اس وقت تک رائے عامہ ان کے خلاف الزامات کو تسلیم نہیں کرے گی نہ ان کا ووٹ بینک متاثر ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ بظاہر کمزور لگتا ہے جسے اکثریتی رائے عامہ نے تسلیم نہیں کیا۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر مسلم لیگ(ن) نے عدلیہ اورفوج کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے۔ اسی لئے الزامات اور شکوک کی وضاحت اور جواب دینے کے لئے ڈی جی آئی ایس پی آر کو پریس کانفرنس کرناپڑی جو غیر معمولی بات ہے۔ اصولی طور پر آرمی چیف کا بیان کہ فوج کا پاناما یا عدالتی فیصلے سے کوئی تعلق نہیں، کافی ہونا چاہئے تھا لیکن الزامات کی بارش نے آئی ایس پی آر کو وضاحت پر مجبور کردیا ۔ سچ یہ ہے کہ موجودہ سیاست میں نہ کوئی شیخ مجیب الرحمٰن ہے نہ کوئی یحییٰ خان ہے اور نہ ہی جسٹس منیر یا غلام محمد ہے۔ نصف صدی کے بعد گڑے مردے اکھاڑنے کی بجائے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ تاریخ سے سبق حاصل کیجئے لیکن تاریخ کو پائوں کی زنجیر نہ بنائیے۔ مستقبل کی کامیاب حکمت عملی ہی میں میاں صاحب کی بقا کا راز مضمر ہے۔

تازہ ترین