• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان اورشمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز پردہشت گردوں کے پے درپے حملوں سے لگتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را اورافغانستان کی این ڈی ایس نے افغان پاسپورٹوں پرپاکستان میں دہشت گردداخل کرنے کاجوگھناؤنا منصوبہ بنایاہے اس پرعملدرآمد شروع ہوگیاہے۔بدھ کی صبح کوئٹہ میں ایک خودکش بمبار نے سوکلو بارودی مواد سے بھری گاڑی ایلیٹ پولیس کے جوانوں کے ٹرک سے ٹکرا دی جس کے نتیجے میں سات اہلکاروں اورایک راہگیر سمیت8افراد شہید اور25زخمی ہوگئے ۔تحریک طالبان پاکستان نے اس اندوہناک واقعے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ملزموں کاکھوج لگانے کےلئے مشرقی بائی پاس کے علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران تین دہشت گردوں کے مرنے کی بھی اطلاع ہے۔کوئٹہ ہی میں قمبرانی روڈ پرایک پولیس انسپکٹر کوگولی ماردی گئی جس کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے قبول کی ہے۔پنجگور میں سکیورٹی فورسز کی گاڑی پرفائرنگ سے بھی ایک اہلکار شہید اورچارزخمی ہوئے۔میران شاہ میں کھجوری چیک پوسٹ پرایف سی کی گاڑی پرریموٹ کنٹرول بم حملہ کیا گیا جس سے دواہلکار شہید ہوئے۔ادھر افغانستان کے سرحدی صوبے پکتیا میں امریکی ڈرون حملے کے دوران زخمی ہونے والے پاکستانی طالبان کے لیڈر اورجماعت الاحرار کے سرابراہ خالد عمرخراسانی کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ہے۔وہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پرحملے سمیت چارسدہ ،نوشہرہ،درہ آدم خیل اورکئی دوسرے علاقوں میں دہشت گردی کے منصوبوں کاماسٹر مائنڈ تھا۔ پاک فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب اورردالفساد کے بعد جو عسکریت پسند ادھر ادھر بھاگ گئے تھے وہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں اوراکا دکا وارداتیں کرتے رہتے ہیں مگر گذشتہ ایک ہفتے سے دہشت گردی کے جومسلسل واقعات ہورہے ہیںوہ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کاشاخسانہ لگتے ہیں۔پاک افغان سرحد آمدورفت کے لئے آسان ہونے کے باعث پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے افغانستان سےتربیت یافتہ دہشت گرد بھیجنے کی اطلاعات اب کوئی خفیہ راز نہیں۔میڈیا کی اطلاعات یہ ہیں کہ بھارت اورافغانستان کی خفیہ ایجنسیوں نے12سو دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کامنصوبہ بنایا ہے جن کاکام سکیورٹی فورسز اورحساس مقامات کونشانہ بنانا ہے،انہیں افغان پاسپورٹ دیئے جائیں گے تاکہ دراندازی میں آسانی ہو۔یہاں پہنچنے کے بعد کالعدم تنظیموں کے ذریعےاسلحہ اورگولہ بارود بھی پہنچا دیا جائے گا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اورایجنسیوں کیلئے ان کاپتہ لگانا بہت بڑاچیلنج ہے۔پاک فوج نے افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد روکنے کیلئے 216کلو میٹر لمبی سرحد پرباڑھ لگانا شروع کردی ہے۔جس کی نگرانی کیلئے فرنٹیر کور کے29ونگ بنائے جائیں گےاور ایک ہزار کے قریب چیک پوسٹیں بھی قائم کی جائینگی۔96ارب روپے کے اس بڑے منصوبے کی تکمیل میں کافی عرصہ لگ سکتا ہے پھرافغانستان بھی اس عمل سے ناخوش ہے اورسرحدی قبائل کواس کے خلاف اکسا رہاہے۔اس لئے جب تک خاردار باڑھ مکمل نہیں ہوجاتی کھلی سرحد سے دہشت گردوں کی آمد روکنا ممکن نہیں اورسبوتاژ کی کارروائیوں کاامکان موجودرہے گا۔ان کاروائیوں کو ملک کے اندرموجود کالعدم تنظیموں کی مدد بھی حاصل رہے گی جن کی تعداد اس وقت64بتائی جاتی ہے ان تنظیموں کو تمام تر قانونی کارروائیوں کے باوجود ختم یاغیر فعال نہیں کیاجسکا۔اس لئے دہشت گردی کے واقعات بھی امکان سے خارج نہیں کئے جاسکتے۔مسلح افواج تواپنا کام خوش اسلوبی سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سیاسی پارٹیاں اورعلما بھی اپنا کردار ادا کریں اورعوام کو متحرک کرکے نیشنل ایکشن پلان کو تیزی سے عملی جامہ پہنچایا جائے امریکہ نے نئی افغان پالیسی کے تحت افغانستان میں مفاہمت کی بجائے طالبان کو کچلنے کےلئے طاقت کا جو استعمال شروع کیاہے اورڈرون حملے بڑھا دیئے ہیں اس کے بعد افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد اورپاکستان میں دہشت گردی کاخطرہ اور بھی بڑھ گیاہے۔اس پرقابو پانے کےلئے قوم کے ہر فرد کو چوکس رہنا ہوگا۔

تازہ ترین