• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک عجیب و غریب زمانے میں ہم جی رہے ہیں، یہ وہ دور ہے جہاں محفوظ اور غیر محفوظ کی تعریف مکمل طور پر بدل چکی ہے، یہاں یورپ کی گلیوں میں سیاحت کرنے والا محفوظ ہے اور نہ ہی کھرب پتی شہزادہ متمول اور زندگی سے بے فکر لوگ بارسلونا یا لندن کی سڑکوں پر سیر کر رہے ہوتے ہیں کہ اچانک کسی جنونی کی گاڑی انہیں کچل دیتی ہے، لو ہو گئی چھٹی، اسی طرح ہم میں سے کوئی طلال بن ولید جیسا دولت مند ہے اور نہ اُس جیسے محفوظ مستقبل کا مالک مگر ایک صبح ہم بیدار ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے شہزادہ صاحب مع درجن بھر مزید شہزادوں کے گرفتار ہو چکے ہیں۔ آگے چلئے،لوگ دنیا و مافیا سے بے خبر ہو کر لاس ویگاس میں ناچ رہے ہیں کہ اچانک کوئی شخص اندھا دھند فائرنگ کر دیتا ہے اور آن کی آن میں پچاس بندوں کی لاشیں گر جاتی ہیں، مصر میں نمازی مسجد میں خدا کے آگے سر بسجود ہیں کہ کچھ لوگ ان پر بم پھینکتے ہیں اور پھر خود کار ہتھیاروں سے گولیوں کی بوچھاڑ کرکے اڑھائی سو نمازیوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں، لاہور کا ایک ارب پتی نوجوان ڈیفنس میں واقع اپنی کافی شاپ کا جائزہ لینے جاتا ہے کہ اچانک وہاں دھماکہ ہوتا ہے اور اگلے ہی لمحے وہ گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان سے میت بن جاتا ہے، ہماری پاک فوج کا ایک جوان رعنا میجر ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں شہید ہو جاتا ہے، کابل کے ڈپلومیٹک علاقے کی حدود میں دھماکے سے نوّے افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں، کوئٹہ میں ہمارا ایک ڈی ایس پی اُس کے معصوم بچے سمیت مار دیا جاتا ہے اور اب ایک ایڈیشنل آئی جی کی شہادت کی خبر آئی ہے۔
کون کسے مار رہا ہے اور کیوں مار رہا ہے؟ کون شہید ہے، کون جاں بحق اور کون ہلاک؟ کسے جنت میں حور ملے گی اور کسے جہنم کی نار؟ کون ظلم کا ساتھی ہے اور کون مظلوم کے ساتھ ہے؟ کون حق پر ہے اور کون باطل؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کی تلاش بے حد مشکل کام ہے۔ میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک اور سید علی گیلانی جیسے عظیم لوگ ہماری نظروں میں اپنے حق خود ارادیت کی جائز جدوجہد کر رہے ہیں مگر بھارت کے شہریوں کی بڑی تعداد انہیں دہشت گرد سمجھتی ہے، خود ہمارے اپنے ملک میں دہشت گردوں کے ہاتھوں پاک فوج کے جوانوں کے سر کاٹے گئے مگر کچھ لوگ اِن دہشت گردوں کو بھی ’’اپنے لوگ‘‘ کہتے رہے، امریکہ نے ویت نام میں بربریت کی انتہا کر دی۔ اِس جنگ کے بدترین ناقد بھی خود امریکی ہیں مگر اِس میں مرنے والے امریکی فوجیوں کی بہادری کو وہ ناقدین بھی خراج تحسین پیش کرتے ہیں، اسی طرح اسرائیل کو اپنے حقوق کی جدو جہد کرنے والے فلسطینیوں سے بڑا دہشت گرد کوئی نہیں نظر آتا۔ عام راہ چلتے لوگوں پر گاڑیاں چڑھانے والے، مسجدوں میں نمازیوں اور سکولوں میں بچوں کا قتل عام کرنے والے، نائیجریا میں بچیوں کو اغوا کرنے والے، شام میں لوگو ں کے سر قلم کرنے والے بھی کسی نہ کسی سوچ اور نظریئے کے تحت ہی یہ سب کچھ کرتے ہیں تو پھر کیسے تعین ہو کہ ان میں سے کس کی جدو جہد جائز اور کس کی دہشت گردی کے ذمرے میں آتی ہے!
دنیا میں دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف نہیں جسے لاگو کرکے بیک وقت کشمیر، فلسطین، امریکہ، ویت نام، مصر، عراق، پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردوں اور حریت پسندو ں کو چھان کر علیحدہ کیا جا سکے، اقوام متحدہ کوئی بھی کتابی تعریف بنا دے مگر یہ ممکن نہیں کہ ایسی تعریف میں ’’جینوئن دہشت گرد‘‘ شامل ہو جائیں اور آزادی اور حقوق کی لڑائی لڑنے والے اس کے دائرہ کار سے باہر نکل جائیں۔ ہر فرد، گروہ اور ملک کے پاس اپنا اپنا جواز ہے، عراق میں لاکھوں بے گناہوں کے جنگ میں مرنے کے باوجود اور اس پر Chilcotانکوائری رپورٹ آنے کے باوجود جس میں یہ ثابت ہوا کہ ٹونی بلئیر نے جارج بش کو عراق پر حملے کی صورت میں غیرمشروط حمایت کا کہا تھا، مسٹر بلئیر کے ماتھے پر پسینہ تک نہیں آیا، آج بھی وہ برطانیہ کے عزت دار شہری ہیں، کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں، یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے ہیں، کسی نے ان کا سوشل بائیکاٹ نہیں کیا۔ جارج بش اور اس کی پوری جنگی کابینہ کا کسی جنگی جرم میں ٹرائل نہیں ہوا گو کہ انہیں امریکہ اور دنیا میں گالم گلوچ کا سامنا ہوتا رہتا ہے مگر ٹونی بلئیر یا جارج بش کو باضابطہ طور پر دہشت لکھا اور پکارا نہیں جاتا۔ آگے چلتے ہیں۔ جس کسی واقعے میں بے گناہ لوگ جیسے عورتیں، بچے، عام شہری مارے جائیں اسے دہشت گردی کہنا چاہئے قطع نظر اس بات سے کہ کسی کا موقف کیا ہے، اس کا مقصد کیا ہے اور اُس کی جدو جہد یا جنگ برحق ہے یا نہیں! لیکن اب اُن دہشت گردوں کا کیا کریں جو عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال بناتے ہیں تاکہ اپنی حفاظت کر سکیں ؟ Collateral damageجیسا خوش کُن لفظ شاید ایسی ہی صورتحال کے لئے ایجاد کیا گیا ہے مگر اس لفظ کی صحیح تعریف پوچھنی ہو تو اس شخص سے پوچھیں جس کا بچہ دہشت گردوں کے خلاف ایسے ہی کسی آپریشن میں collateral damageکے طور پر مارا جائے۔
لیکن جس طرح بے ایمان تاجر کو علم ہوتا ہے کہ وہ بے ایمان ہے، ضمیر فروش صحافی کو علم ہوتا ہے کہ وہ ضمیر فروش ہے، بد عنوان افسر کو علم ہوتا ہے کہ وہ کرپٹ ہے اور ایمان بیچنے والے عالم کو اچھی طرح پتہ ہوتا ہے کہ وہ مذہب فروشی کرتاہے اسی طرح دہشت گردوں کو بھی پتہ ہے کہ وہی اصل دہشت گرد ہیں چاہے وہ ٹونی بلیئر ہو یا طالبان، جارج بش ہو یا داعش، نریندر مودی ہو یا کلب میں اندھا دھند گولیاں چلانے والا کوئی امریکی۔ آج کی دنیا غیریقینی بھی ہے اور جڑی ہوئی بھی، بارسلونا میں راہ گیر سیاحو ں کو گاڑی تلے روندنے والا، کابل میں دھماکہ کرنے والا یا مصر میں نمازیوں کو گولیوں سے بھوننے والے۔ کسی نہ کسی طرح یہ واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، کسی بھی ملک کے لئے دہشت گردی کے خلاف تن تنہا کامیابی اب بے حد مشکل ہے خصوصاً ایسے حالات میں جب دنیا کے مختلف خطوں کے ساتھ ساتھ اُس ملک کے اطراف میں بھی خوں ریزی ہو رہی ہو۔ ایک ایسی سفاک دنیا میں ہم جی رہے ہیں جہاں یمن میں ہزاروں بچے خوراک کی کمی کا شکار ہو کر مرچکے ہیں، چار لاکھ مرنے کے قریب ہیں اور ہر دس منٹ کے بعد ایک بچہ ڈائریا، سانس کی خرابی یا خوراک کی کمی کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہا ہے۔ اگلے اکیس روز میں یمن میں ایندھن کی کمی ہو جائے گی، ستانوے دنوں میں گندم کی کمی ہو جائے گی اور ایک سو گیارہ دنوں میں یمن میں چاول ملنے مشکل ہو جائیں گے (یہ اعداد و شمار ’’مغربی دجال میڈیا‘‘ کے ہیں)، شاید یہ سب کچھ دہشت گردی کی کسی بھی قسم کی تعریف میں شامل کرنا ممکن نہیں،نہ جانے کون کسے مار رہا ہے، کس مقصد کے لئے مار رہا ہے اور کب تک مارتا رہے گا۔ دنیا میں ایسے سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے تھنک ٹینک بنائے جاتے ہیں جو اونچی عمارتوں کے بڑے بڑے دفاتر میں منرل واٹر کی بوتلیں سامنے رکھ کر ایسے گورکھ دھندوں کا حل بتاتے ہیں۔ جب تک یہ حل دنیا میں لاگو ہوگا تب تک نہ جانے کتنی جانیں اور ضائع ہو جائیں گی۔

تازہ ترین