اسلام آباد (فخر درانی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپرملز کیس دوبارہ کھولنے کے لئے نیب کی اپیل مسترد کر کے جے آئی ٹی کی ساکھ کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں بلند وبانگ دعوے کیے تھے کہ وہ قابل ذکر اضافی شواہد ریکارڈ پر لے آئے ہیں جو ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات کی توثیق اور دونوں تحقیقات کے مابین تعلق بھی قائم کرتے ہیں۔ اس میں یہ سفارش بھی کی گئی تھی کہ تما م مقدمات جے آئی ٹی کی جانب سے نئے اضافی شواہد کی بنیاد پر تحقیقات اور ٹرائل کے لئے دوبارہ کھولنے کے لئے پوری طرح موزوں ہیں۔ تاہم جے آئی ٹی کے دعوؤں کے برعکس نیب وہ اضافی قابل ذکر شواہد اور معزز عدالت کے سامنے مبینہ منی لانڈرنگ ثابت کرنے کے لئے منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اب جبکہ معزز عدالت نے حدیبیہ پیپر ملز کیس دوبارہ کھولنے کے لئے نیب کی درخواست مسترد کر دی ہے تو سوال یہ ہے کہ آیا جے آئی ٹی نے واقعی حدیبیہ پیپر ملز کیس میں کوئی تحقیقات کی تھیں۔ اگر کوئی سنجیدہ تحقیقات ہوئی تھیں تو نیب وہ قابل ذکرشواہد عدالت کے سامنے پیش کرنے میں ناکام کیوں رہا، یا پھر کوئی نئے شواہد نہیں تھے اور جے آئی ٹی نے کیس کے پرانے حقائق ہی پیش کیے۔ بظاہر سپریم کورٹ کے 15 دسمبر کے فیصلے سے جس میں نیب کی درخواست مسترد کی گئی ہے، ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی نئی شہادت نہیں تھی جیسا کہ جے آئی ٹی نے دعوی کیا تھا۔ جے آئی ٹی نے اپنی فائنڈنگ میں دعوی کیا تھا کہ ان فائنڈنگز کی روشنی میں محفوظ طریقے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ 1991 میں آغاز سے 1998 میں اختتام تک مختلف مشکوک اور دھوکا دہی پر مبنی غیرملکی کرنسی کے اکاؤنٹس کھولے گئے اور قرض حاصل کیا گیااور ان کھاتوں میں موجود ڈپازٹ کو استعمال کر کے کاروباری ادارے یعنی حدیبیہ انجینئرنگ، چوہدری شوگر، حمزہ بورڈ ملز کو فائدہ پہنچایا گیاجو مدعا علیہان اور ان کے قریبی اہل خانہ کی ملکیت تھے۔ آخر کار مدعا علیہ نمبر 10 کی جانب سے قائم کیا گیا قرضوں کا پیچیدہ اسٹرکچر 1998 میں مکمل ہوگیا جس سے باقی ماندہ پورا منافع جو 712 ملین روپے تھا دو کمپنیوں، حدیبیہ پیپر ملز (642 ملین روپے)اور حدیبیہ انجینئرنگ (70 ملین روپے)شیئر سبسکرپشن کے عوض بطور ایڈوانس میں پہنچا۔ 1998 سے دونوں کمپنیوں نے ایڈوانس کے عوض حصص جاری نہیں کیے ہیں، ایس ای سی پی کے پاس جمع کرائے گئے ان کمپنیوں کے آڈٹ شدہ مالی گوشواروں بشمول منافع کے مطابق کسی بھی شخص کی جانب سے کمپنیوں کے خلاف کوئی دعوی نہیں کیا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہو کہ ایڈوانس کے عوض شیئرز جاری کیے جائیں یا رقم واپس کی جائے۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی کے ریکارڈ پر موجود شخص یعنی صادقہ سید ، محفوظ حسین خادم اور قاضی خاندان کے ارکان جنہوں نے (شیئرز سبکرپشن کے لئے بطور ایڈوانس)کمپنی کے کھاتوں میں اتنا بھاری فنڈ منتقل کیا، فنڈز جمع کرانے والے اصل افراد نہیں تھے۔ یہ رقم جمع کرانے والے حقیقی افراد بظاہر اپنی اصل شناخت چھپانا چاہتے تھے۔ یہ بالکل ظاہر ہے کہ ان فنڈز کے حقیقی بینی فشری ایچ پی ایم ایل میں ایکویٹی ہولڈرز تھے۔