• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں رواں سال تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ غربت اور بیروزگاری کے باعث نوجوانوں کی غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی خواہش روز بروز شدت اختیار کرتی جارہی ہے اور حالیہ دنوں اس رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ملکی و غیر ملکی اخبارات میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے مسلسل خبریں شائع ہورہی ہیںجس نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ ایک وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے لیکن حکومت اس مسئلے پر خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
گزشتہ دنوں ترکی کے شہر استنبول میں ترک پولیس نے 57 پاکستانی تارکین وطن کو انسانی اسمگلرز کے چنگل سے بازیاب کرایا جنہیں اسمگلرز نے زنجیروں سے باندھ کر تہہ خانے میں قید کررکھا تھا اور اُن پر تشدد کیا جارہا تھا۔ انسانی اسمگلروں نے ان پاکستانیوں کو 10 ہزار ڈالر کے عوض یورپ پہنچانے کا جھانسہ دیا تھا مگر یورپ پہنچنے سے قبل انہیں استنبول کی ایک عمارت میں قید کرکے اُن کے اہل خانہ سے 10 ہزار ڈالر (تقریباً ساڑھے دس لاکھ روپے) کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ انسانی اسمگلنگ کے اس واقعہ میں 3 پاکستانی اسمگلرز بھی ملوث تھے جنہیں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں بلکہ کچھ عرصہ قبل بھی ترک پولیس نے استنبول سے 6 پاکستانیوں کو انسانی اسمگلرز کے چنگل سے بازیاب کرایا تھا۔ روزگار کی غرض سے ترکی کے راستے یورپ جانے والے ان پاکستانی نوجوانوں کو انسانی اسمگلرز سبز باغ دکھاکر غیر قانونی طریقے سے ترکی لائے تھے جنہیں بعد میں قید کرکے ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے اہل خانہ کو تشدد آمیز تصاویربھیج کر فی کس 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کرتے رہے۔ اس واقعہ میں مقامی اسمگلرز کے ساتھ کچھ پاکستانی اسمگلرز بھی ملوث تھے۔ اسی طرح انسانی اسمگلنگ کے ایک اور واقعہ میں گزشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے تربت سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے 20نوجوانوں کی لاشیں ملی تھیں۔ یہ بدنصیب نوجوان بلوچستان کے راستے براستہ ایران غیر قانونی طور پر یورپی ممالک جانے کی کوشش کررہے تھے۔
’’لیبر مائیگریشن فرام پاکستان‘‘ کی اسٹیٹس رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں بیرون ممالک سے پاکستانیوں کو سب سے زیادہ ڈی پورٹ کیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ 3سالوں کے دوران 3لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو بیرون ملک سے ڈی پورٹ کیا جاچکا ہے۔ ڈی پورٹ کئے جانے والوں میں اکثریت کا تعلق گجرات، جہلم، بہاولپور، منڈی بہائو الدین اور پاکستان کے دیگر شہروں سے تھا۔ ان علاقوں کے لوگ یہ دیکھ کر کہ محلے کے کسی خاندان کے نوجوان کے بیرون ملک جانے سے اُس خاندان کے معاشی حالات بہتر ہوگئے ہیں تو وہ بھی اِسی لالچ میں اپنے جوان بیٹوں کو بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ان نوجوانوں میں سے کچھ خوش نصیب ہی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں جبکہ بیشتر نوجوان یا تو اسمگلرز کے ہاتھوں دھرلئے جاتے ہیں یا پھر اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی اسمگلنگ کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور دیگر جرائم کی طرح انسانی اسمگلنگ کا گھنائونا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ خاندان کی معاشی بہتری اور آنکھوں میں روشن مستقبل کے سہانے خواب سجائے بیرون ملک جانے والے اکثر نوجوان ایسے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو اُنہیں بھاری رقم کے عوض بہتر مستقبل کا خواب دکھاکر پرخطر اور غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کیلئے اپنے جالوں میں پھنسالیتے ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی 900کلومیٹر طویل سرحد انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جہاں انسانی اسمگلرز انتہائی سرگرم ہیں۔ یورپ جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو اِسی راستے سے ایران اور بعد ازاں ترکی لے جایا جاتا ہے جہاں سے اُنہیں کنٹینرز اور کشتیوں کے ذریعے یونان بھیج دیا جاتا ہے مگر کچھ خوش نصیب ہی اپنی منزل تک پہنچ پاتے ہیں اور بیشتر نوجوانوں کو منزل مقصود پر پہنچنے سے قبل ہی ترکی میں یرغمال بنالیا جاتا ہے۔ اسی طرح غیر قانونی طور پر خلیجی ممالک جانے کے خواہشمند نوجوانوں کو بلوچستان کے سرحدی علاقے مندبلو کے راستے کشتی کے ذریعے مسقط پہنچایا جاتا ہے جہاں سے یہ نوجوان دیگر خلیجی ممالک میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے UNDC کی رپورٹ کے مطابق انسانی اسمگلنگ نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہ وبا کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان میں اس گھنائونے دھندے سے ایک ہزار سے زائد کریمنل نیٹ ورک منسلک ہیں جن کا یہ غیر قانونی کاروبار ایک ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ جرائم پیشہ انسانی اسمگلرز سرعام سادہ لوح اور معصوم نوجوانوں کو اپنے جالوں میں پھنسا کر اُن سے بھاری رقوم بٹورہے ہیں لیکن حکومت اُن کے سامنے بے بس نظر آتی ہے جبکہ انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے متعلقہ ادارے بھی کرپشن کی وجہ سے ان جرائم پیشہ لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کے خواہشمند پاکستانی نوجوانوں میں سے صرف 2فیصد خوش نصیب نوجوان ہی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں جبکہ باقی 98فیصد نوجوان یا تو سمندری لہروں کا شکار ہوجاتے ہیں یا پھر اُنہیں گرفتار کرکے پاکستان ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے۔
انسانی اسمگلنگ سے جہاں ایک طرف بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی ہوتی ہے، وہیں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کے پکڑے جانے اور ڈی پورٹ کئے جانے سے بھی ملک کی تضحیک ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں یہ بیماری کی صورت اختیار کرجائے گا۔ سمندر میں ڈوب کر مرنے والے یا انسانی اسمگلرز کے ہاتھوں اغوا ہونے والے پاکستانی نوجوانوں کی داستانیں اتنی المناک ہیں کہ انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ حال ہی میں یونان سے ڈی پورٹ کئے جانے والے بیشتر پاکستانی نوجوانوں نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ ’’ہم نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر اپنی زندگی دائو پر لگانے کے بعد ہمیں یونان میں پناہ گزین کیمپوں کے بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔‘‘
انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ، معصوم نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کیلئے پاکستان بھر میں دندناتے پھررہے ہیں مگر اس کے باوجود حکومتی اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے جو شاید انسانی اسمگلرز کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ میں اپنے کالم کے توسط سے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح حکومت نے ’’ضرب عضب‘‘ اور ’’کراچی آپریشن‘‘ کرکے ملک سے کافی حد تک دہشت گردی کا خاتمہ کیا ہے، اُسی طرح انسانی اسمگلنگ کے خلاف بھی آپریشن کرکے اس گھنائونے دھندے میں ملوث جرائم پیشہ افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی پیسے کے لالچ میں نوجوانوں کی زندگی سے نہ کھیل سکے۔ غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے نوجوانوں کے اہل خانہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کریں تاکہ کل وہ اُن کی موت کا ذمہ دار خود کو نہ ٹھہراسکیں۔

تازہ ترین