• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز لاہور کی مال روڈ پر منعقدہ اپوزیشن پارٹیوں کے جلسے میں جہاں نئی باتیں دیکھنے میں آئیں وہاں کئی ایسی باتیں نظر نٓہیں آئیں جن کا قبل ازیں اعلان کیا جارہا تھا۔ کئی ایسے پہلو بھی سامنے آئے جو اپنے اندر امکانات و خدشات دونوں کے مضمرات رکھتے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرانے کے دعووں کے ساتھ منعقدہ اجتماع میں حاضرین کی تعداد کے حوالے سے میڈیا کے بیشتر ذرائع میں اگرچہ ماضی کے متضاد دعووں کے برعکس پہلی بار یکساں طور پر مایوس کن تاثر نمایاں ہوا ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس اجتماع کو اپوزیشن کی تقریباً تمام ہی بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی اور ان کے لیڈروں نے الگ الگ نشستوں میں جن خیالات کا اظہار کیا انہیں سننے کے لئے ان کے کارکن بھی الگ الگ اوقات میں آتے جاتے رہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری عمران خان اور آصف علی زرداری کو ایک جلسے کے اسٹیج پر لانے میں تو کامیاب ہوگئے مگر ان کا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے قائدین کو اپنے دائیں بائیں ایک ساتھ بٹھانے کا دعویٰ پورا نہ ہوسکا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ پنڈال کی نشستیں دونوں سیشنوں میں پُر رکھنا پاکستان عوامی تحریک کی ذمہ داری سمجھا گیا۔ ورنہ سبھی جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں کی جانب سے پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں بڑے بڑے جلسے ہوچکے ہیں اور مزید ہورہے ہیں۔ ماڈل ٹائون جلسے کے حوالے سے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس میں مقامی لوگوں کی شرکت کم رہی۔ بدھ کے روز لاہور میں اگرچہ سیاسی گہما گہمی کا ماحول نظر آیا اور سیاسی پنڈتوں کی طرف سے کئی پیش گوئیاں بھی کی گئیں مگر عملی صورتحال یہ رہی کہ جلسہ گاہ کی بہت سی نشستیں خالی تھیں اور خلاف توقع جلسہ کسی نتیجے پر پہنچے یا کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری کئے بغیر ختم ہوگیا۔ جلسے کے دوران کئی مقررین کی سوئی شیخ رشید کی اس تجویز پر اٹکی نظر آئی کہ اسمبلیوں کے ارکان کو ایوانوں سے استعفیٰ دیدینا چاہئے۔ ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان آخری لمحوں میں شیخ رشید کے مذکورہ مطالبے کے علاوہ اس بات پر بھی متفق محسوس ہوئے کہ شریف برادران کا تختہ الٹنے کے لئے جاتی امرا کی طرف مارچ کیا جائے۔ جلسے میں موجود تمام لیڈروں بشمول آصف زرداری، عمران خان، ڈاکٹر طاہر القادری اور مصطفیٰ کمال کی تقاریر کا لب لباب یہ تھا کہ ماڈل ٹائون میں لوگوں کو قتل اور اپاہج کرنے کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے مگر یہ بات تعجب سے دیکھی گئی کہ مظلوموں کو انصاف دلانے کے نعرے پر منعقدہ ریلی میں دو اہم سیاسی جماعتوں کے رہنما ایک ساتھ نظر نہیں آئے بلکہ انتخابات سے قبل کسی اتحاد کے تاثر سے بچنے کے لئے ریلی کی کارروائی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا جس کے پہلے حصے میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور دوسرے حصے میں تحریک انصاف کے سربراہ نے خطاب کیا۔ عوام کے تحفظ میں پارلیمنٹ کی مبینہ ناکامی پر شیخ رشید کے تبصرے اور عمران خان کے اپنے پارٹی رہنمائوں سے مشاورت کے عندیہ پر مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز کا ایک دلچسپ تبصرہ ٹوئٹ ہوا۔ ان کا کہنا تھا خدا کی شان دیکھئے کہ جو لوگ استعفیٰ لینے کے لئے جمع ہوئے تھے وہ اب خود استعفیٰ دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کو یہ مشورہ دیتے نظر آئے کہ وہ احتجاج کو منظم کرنے اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے ان کے مشوروں سے استفادہ کریں کیونکہ انہیں سڑکوں پر آنے اور احتجاجی تحریک چلانے کی خاصی پریکٹس ہوچکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن اگلے دو دنوں میں ایک میٹنگ کرے گی جس میں مستقبل کی احتجاجی تحریک کو حتمی شکل دی جائے گی۔ ان کے اس بیان سے ان قیاس آرائیوں کی تردید ہوگئی کہ اسٹیرنگ کمیٹی کے کنٹینر اجلاس میں احتجاج کے اگلے مرحلے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین کی طرف سے ایک متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ کا اعلان کیا جائے گا۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پہلے سیشن کی صدارت کی اور اپنے خطاب میں دعویٰ کیا کہ شریف برادران نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے تمام قومی اداروں کو تباہ کر ڈالا جن میں پولیس کا ادارہ بھی شامل ہے۔ ماڈل ٹائون جلسے میں حکومت اور شریف برادران پر کی گئی تنقید بلاشبہ جمہوریت کا حصہ ہے اور اس نظام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ حکمراں اور متعلقہ ادارے مستقل طور پر احتساب کی زد میں رہتے ہیں۔ یہ احتساب قومی اداروں کو ان کی آئینی حدود میں رکھنے کا ذریعہ ہے اور پارلیمانی اجلاسوں کے علاوہ اور جلوسوں کے ذریعے ایسی فضا قائم رکھتا ہے جس میں عوام کے مسائل اور شکایات کو تادیر نظر انداز رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ پرجوش تقریریں بھی جمہوری نظام کی رونق بڑھاتی ہیں۔ مگر اس نظام کی بنیادیں شائستگی اور مہذبانہ طور طریقوں پر استوار ہوتی ہیں۔ ایسے نظام میں جو ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لئے‘‘ کے تصور کا حامل ہو، کیونکر ممکن ہے کہ ریاست کے لوگوں کے خلاف، خواہ وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتے ہوں غیر شائستہ زبان اختیار کی جائے۔ پارلیمنٹ جمہوری نظام کا اہم ستون ہے، اس میں وہی لوگ آتے ہیں جنہیں عوام اپنا نمائندہ بناکر بھیجتے ہیں۔ انتخابات کا انعقاد بھی اس لئے ہوتا ہے کہ اچھے افراد ایوانوں میں لائے جائیں۔ مگر جو نظام اصلاح احوال کے لئے سخت تنقید کا حق دیتا ہو، اس میں اگر ’’لعنت‘‘ کا لفظ استعمال کرنے کو اکراہ کے ساتھ آزادی اظہار کا حصہ مان لیا جائے تو بھی اس لفظ کا استعمال پارلیمنٹ کے لئے کسی طرح مناسب نہیں جسے بعض ملکوں میں جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے۔ کوئی رکن اسمبلی اس لفظ کے استعمال کے بعد خود کیسے اس کے دائرے سے باہر رہ سکتا ہے۔ کسی کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجانے، بوٹیاں نوچنے، نیزہ اٹھانے جیسے الفاظ سے اجتناب ہمیں انارکی کے عذاب سے بچا سکتا ہے۔ لاہور کے جلسے کا اصل ہدف اگرچہ شہباز حکومت کو گرانا تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی یقینی نظر آتی ہے مگر تمام بڑی پارٹیوں کے یکجا ہونے سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہدف بہت مضبوط ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اس بات کا بہر طور جائزہ لینا چاہئے کہ وہ پی پی کی حمایت سے کیوں کر محروم ہوئی۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں کے مقاصد کتنے ہی ارفع ہوں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ہے کہ مہم جوئی کی سیاست سے ملک اور عوام کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوگا؟

تازہ ترین