• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز لاہور میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے بارے میں ایک فقرہ بہت سے لوگوں کی زبان پر رہا کہ اسٹیج تو کھچا کھچ بھرا تھا مگر پنڈال میں کرسیاں خالی تھیں۔ یہ کسی ایک پارٹی کا پاور شو نہیں تھا بلکہ تمام بڑی جماعتیں خصوصاً پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اس کی بڑی پارٹنر تھیں۔ لاہوریوں نے ثابت کر دیا کہ وہ اس طرح کی سیاست کے ساتھ نہیں ہیں اور وہ نون لیگ کے حامی ہیں۔ مال روڈ جیسی مصروف ترین شاہراہ پر لوگوں کا اتنا چھوٹا سا مجمع تمام منتظمین کیلئے سخت شرمندگی اور سبکی کا باعث بنا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے لاہور سے تقریباً 8لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے اگر ان میں سے ایک فیصد بھی اس احتجاج میں شرکت کرتے تو یہ ایک بھرپور جلسہ ہوسکتا تھا۔ عمران خان نے ساڑھے چار سال ہر روز احتجاج کر کے اپنے ووٹرز اور حامیوں کو بیزار کر دیا ہے اور وہ ہر وقت اس کی وہی پرانی گھسی پٹی باتیں سننے کو تیار نہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے اپنا ذہن بھی بدل لیا ہے اور اب وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس احتجاج نے یہ بھی ثابت کیا کہ بیچاری پیپلزپارٹی باوجود کان پھاڑنے والی گھن گرج کے ابھی بھی 2013ء والی پوزیشن پر ہی ہے۔ جو بھی اس کےحامی اور ووٹرز باقی رہ گئے ہیں انہوں نے بھی مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اس شو میں شرکت کریں۔ باقی بہت سی جماعتیں جو اس احتجاج کے ساتھ تھیں ان کی تو عوامی پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے لہذا انہوں نے اس مجمع کو بڑا کرنے کیلئے کیا حصہ ڈالنا تھا۔ جو بھی چند ہزار لوگ وہاں موجود تھے وہ صرف اور صرف علامہ طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک کے ہی حامی تھے اور اس جماعت کی نہ تو لاہور اور نہ ہی قومی سطح پر کوئی اچھی اسٹینڈنگ ہے۔ لگ یوں رہا ہے کہ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی اور دوسری تمام جماعتوں نے یہ انہی پر چھوڑ دیا تھا کہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ان کا کام ہے جبکہ ان تمام پارٹیوں کے رہنما اس احتجاجی ریلی سے خطاب کرنے کیلئے آ جائیں گے تاکہ وہ انکے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکیں۔
یقیناً یہ ایک فلاپ شو تھا جس کا فائدہ تو منتظمین کو کچھ نہیں ہوا مگر نقصان ضرور ہوا ہے کیونکہ ان کی ساری ’’عوامی طاقت‘‘ بری طرح ایکسپوز ہو گئی ہے۔ کئی روز سے ’’ہوا‘‘ کھڑا کیا ہوا تھا کہ مال روڈ پر یہ احتجاج ہوگا اور فوراً ہی نون لیگ کی پنجاب اور وفاق میں حکومتیں دھڑام سے نیچے گر جائیں گی۔ نون لیگ تو خوش ہے کہ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتیں مل کر بھی عوامی سطح پر اسے کوئی بڑا ڈینٹ ڈالنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ایک زمانہ تھا جب تمام جماعتیں پیپلزپارٹی کے خلاف مل کر الیکشن لڑا کرتی تھیں۔ اب یہ پوزیشن نون لیگ نے حاصل کر لی ہے۔ تقریریں بہت سی ہوئیں اور بڑی دھواں دھار جن میں جاتی امرا کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں بھی دی گئیں مگر جلسے میں موجود لوگوں کا رسپانس نہ ہونے کے برابر تھا۔ بظاہر لوگ کافی بیزاری کے عالم میں وہاں بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ علامہ صاحب کا حکم تھا۔ تمام ا سپیکرز اپنی بھرپور تقریروں کے ذریعے ہی حکومت گرانا چاہتے تھے انہیں یہ پروا نہیں تھی کہ ان کے سامنے کتنے لوگ موجود ہیں۔ ہمارے ہاں تو یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ ڈی چوک میں عمران خان کنٹینر پر چڑھ کر کئی ہفتے خالی کرسیوں سے ہی خطاب کرتے رہے اور ان کی تقاریر ٹی وی چینل لائیو دکھاتے تھے۔ نوازشریف کو سیکورٹی رسک بھی کہا گیا اور ان پر حملے کئے گئے کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی تھی کہ شیخ مجیب الرحمن کو غداربننے پر مجبور کیوں کیا گیا جس سے مشرقی حصہ پاکستان سے علیحدہ ہوگیا۔ اس سے قبل انہیں مودی کا یار بھی کہا گیا تھا۔ انہیں اب ’’غدار‘‘ کا لقب بھی دیا جارہا ہے یہی سارے القابات شہید بینظیر بھٹو کو بھی دیے جاتے رہے مگر عوام اتنے باشعور ہیں کہ وہ اس طرح کی یاوہ گوئی پر کان نہیں دھرتے۔ ایسے الزامات جن رہنمائوں کے خلاف لگائے جاتے ہیں عوام انہیں زیادہ پذیرائی بخشتے ہیں۔ شیخ رشید جیسے ’’ڈھولوں‘‘کی باتیں تو چھوڑیں اگر آصف زرداری بھی ایسے ہی الزامات لگائیں تو نہ صرف پیپلزپارٹی بلکہ اور دوسرے بے شمار لوگوںکو بھی شرم محسوس ہوتی ہے کہ سابق صدر جو پہلے ہی پیپلزپارٹی کا جنازہ نکال ہی چکے ہیںکی سیاست کتنی گراوٹ کا شکار ہے۔
تاہم آصف زرداری کی شرکت بظاہر ’’واجبی‘‘ قسم کی تھی اور تقریر بھی مختصر جس میں نشانہ نوازشریف تھے۔ انہیں سابق وزیراعظم پر حملے ضرور کرنے چاہئیں مگر انہیں یہ بات بھی سوچنی چاہئے کہ ان کی جماعت خصوصاً پنجاب میں نوازشریف نہیں بلکہ عمران خان ہڑپ کر گئے ہیں جن پر انہوں نے ہاتھ کافی ہلکا رکھا ہوا ہے۔ شاید بلاول کو یہ سمجھ آگئی ہے اور اسی لئے وہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اکثر آڑے ہاتھوں لیتے رہتے ہیں۔ شیخ رشید نے پارلیمنٹ پر لعنت بھیجی ہے اور عمران خان نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ یہ وہی پارلیمنٹ ہے جس کا وہ دونوں حضرات پچھلے ساڑھے چار سال سے حصہ ہیں۔ شیخ رشید کا پارلیمان میں کوئی بڑا اسٹیک نہیں ہے ان کے پاس ایک سیٹ ہے مگر پھر بھی وہ اتنے سیانے ہیں کہ انہوں نے ایسے وقت اس سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ اسمبلیوں کی مدت کم رہنے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کا وقت ہی نہیں بچا حالانکہ جب پی ٹی آئی نے اسمبلیوں سے استعفے دیے تھے تو وہ اس میں شامل نہیں تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کا استعفیٰ فوراً منظور کر لیا جائے گا یعنی وہ کسی صورت بھی اسمبلی کی ممبرشپ سے محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ باہمی اختلافات کی وجہ سے یہ احتجاج کوئی بڑا اثر پیدا نہیں کرسکا۔ ان جماعتوں میں اتحاد اور یکجہتی کا یہ عالم تھا کہ عمران خان اور آصف زرداری اسٹیج پر اکٹھے نظر ہی نہیں آنا چاہتے تھے مشترکہ تحریک وہ کیا چلائیں گے۔ اس نفاق کو دور کرنے کیلئے علامہ صاحب نے آصف زرداری کی تقریر پہلے کروا دی اور جونہی ان کا خطاب ختم ہوا وہ وہاں سے چلے گئے۔ عمران خان خطاب کیلئے بعد میں آئے۔ یہ دونوں حضرات کندھا علامہ صاحب کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ نون لیگ پر دبائو ڈالا جائے اور وہ چاہتے ہیں کہ قربانی کا بکرا بھی عوامی تحریک ہی بنے اور اس کا سیاسی فائدہ وہ اٹھائیں۔پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کی اس احتجاج میں شرکت دراصل ان کے الیکشن کمپین کا حصہ تھی۔ لگ یوں رہا ہے کہ ’’کسی‘‘ نے ان کو ا سٹیج پر تو اکٹھا کر دیا مگر آگے کیا لائحہ عمل نون لیگ کو اگلے الیکشن میں نقصان پہنچانے کیلئے اختیار کرنا ہے ابھی طے ہونا باقی ہے۔ علامہ صاحب نے جس طرح آخری سیشن میں اپنی تقریر بغیر کوئی اگلا پروگرام دئیے ختم کی اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ فیصلے ابھی ہونا باقی ہیں۔

تازہ ترین