• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری قومی قیادت اور ہمارے معاشرے کے بااثر طبقے کتاب سے اپنا رشتہ ختم کرتے جا رہے ہیں جس کے باعث ذہنی افلاس پھیل رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اربابِ اقتدار بھی صاحب ِتصنیف ہوتے تھے۔ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر رچرڈ نکسن کے ناموں سے تو ہم سب واقف ہیں۔ انہوں نے معرکۃ الآرا کتابیں لکھیں اور افکار کی دنیا میں گراں مایہ اضافہ کیا۔ دراصل آزادی اور شعور کی وہی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہیں جو ڈراموں، ناولوں، افسانوں اور علمی مباحث کا موضوع بنتی ہیں۔ فرانس کو الجزائر اور امریکہ کو ویت نام سے اِس لیے نکلنا پڑا کہ سارتر جیسے عظیم ادیب نے مزاحمتی تحریکوں کا ساتھ دیا۔ اُن سے کہیں زیادہ خوں رنگ تحریکِ آزادی مقبوضہ کشمیر میں ستر سال سے چل رہی ہے۔ چھ لاکھ سے زائد بھارتی فوجوں کی سنگینیں اور پیلٹ بندوقیں ان کے جذبۂ حریت کو دبا نہیں سکیں۔ خواتین اور نوجوان اس تحریک میں پیش پیش ہیں جو ایک ناقابلِ شکست عزم کے ساتھ سینہ سپر ہیں۔ ہمارے ادیبوں اور قلم کاروں کو ایسے افسانے، ڈرامے اور ناول تخلیق کرنے چاہئیں جو عالمی ضمیر میں ایک اضطراب اور کسک پیدا کریں۔ ہم اہلِ کشمیر کی عزیمت، ان کے ایثار اور ان کی سرفروشی کو سلام کرتے ہیں۔
میں ایک آنکھ کی بینائی ضائع ہونے کے باجود کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ مجھے پاکستان کے انتہائی فرض شناس، دیانت دار اور دانش مند اعلیٰ پولیس افسر جناب ذوالفقار احمد چیمہ کی ’دوٹوک باتیں‘ اور ہمارے نہایت محترم ادیب اور کہنہ مشق صحافی جناب فاروق عادل کی ’جو صورت نظر آئی‘ سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ ’دوٹوک باتیں‘ حیرت انگیز معلومات، فکری، روحانی، سیاسی اور انتظامی تصورات اور وطن سے محبت کے لازوال جذبات کا ایک بیش بہا خزینہ ہے۔ فاضل کالم نگار نے ہمیں روس، قازقستان، ترکی، بھارت اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں کے بارے میں ایسی معلومات فراہم کی ہیں جن سے عام لوگ پہلے واقف نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں واضح کیا کہ عدلیہ کی آزادی سے زیادہ انتظامیہ کی آزادی ضروری ہے کہ اس کا عوام کے ساتھ براہِ راست تعلق رہتا ہے۔ ان کے مطابق ملک میں قیامِ امن کے لیے تحریک ِ بحالی ٔ عدل و انصاف اب ناگزیر ہو چکی ہے۔ ان کا تجزیہ ہے کہ پولیس کی جدید خطوط پر تنظیم اور تربیت ازبس لازمی ہے جس کی طرف اعلیٰ حکام ذرا توجہ ہی نہیں دیتے۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت میں بڑے بڑے شہروں میں پولیس کمشنریٹ کا نظام بڑی کامیابی سے چل رہا ہے جس میں پولیس کمشنر امنِ عامہ کا ذمہ دار ہوتا ہے اور عوام کے سامنے جواب دہ بھی۔ اس کے برعکس سانحۂ ماڈل ٹاؤن اور فیض آباد چوک پر دھرنے کے موقع پر ہماری پولیس کا کردار انتہائی غیر ذمہ دارانہ رہا۔
جناب ذوالفقار چیمہ نے اپنی زندگی میں سخت مقام کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے جب کبھی قانون اور انصاف کے خلاف کام کرنے کا حکم دیا گیا، تو میں نے قائداعظم کی تصویر سے رہنمائی لیتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیا اور صراطِ مستقیم پر چلتا رہا۔ ’دوٹوک باتیں‘ حکمرانوں، اعلیٰ افسروں اور جعلی پیروں فقیروں کی منافقتوں کا پول کھولتی ہیں اور اس حقیقت کا بھی کہ پولیس کے ’معززین‘ دراصل مختلف جرائم اور خباثتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ چیمہ صاحب نے برطانیہ کے اعلیٰ ترین تدریسی اداروں آکسفورڈ، کیمبرج اور لندن اسکول آف اکنامکس میں طلبا و طالبات سے خطاب اور ملاقاتوں کی تفصیلات جس مؤثر پیرائے میں تحریر کی ہیں، وہ بہت چشم کشا اور ایقان افروز ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں نے جب انہیں بتایا کہ پاکستان انسانی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے اور اس کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہے اور نوجوانوں کی آبادی 60فی صد کے لگ بھگ ہے، تو ان کی آنکھیں اعتماد اور خوشی سے چمک اُٹھیں۔ انہوں نے ایک اعلیٰ برطانوی شہری کا واقعہ بھی رقم کیا ہے جو ایک بڑی کمپنی میں بہت بڑے عہدے پر کام کر رہا تھا۔ اس کا تبادلہ پاکستان ہو گیا، تو اس کی بیوی اور اس کے دوست غم کی تصویر نظر آئے کہ اسے موت کی وادی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ وہ جب پاکستان آیا اَور اسے بہت آرام اور سکون ملا، تو اس نے اپنے بیوی بچے بھی پاکستان بلا لیے جو یہاں آ کر خوشی سے پھولے نہ سمائے کہ ماحول بہت دوستانہ اور خوشگوار تھا، تب انہیں احساس ہوا کہ پاکستان اس تصویر سے یکسر مختلف ہے جو اُن کے میڈیا میں دکھائی جاتی ہے۔ ’دوٹوک باتیں‘ کے مطالعے سے قاری کے اندر یہ عزم پیدا ہوتا ہے کہ ہر ادارہ درست کیا جا سکتا ہے اور اِس خطے کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔
جناب فاروق عادل نے اپنی تصنیف ’جو صورت نظر آئی‘ میں تیس سے زائد ایسی شخصیتوں کا انتخاب کیا ہے جن کے ساتھ اُن کا کسی طور تعلق رہا اَور اُن کے اندر کچھ ایسے پہلو تلاش کیے ہیں جو عام لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہتے تھے۔ رضا عابدی صاحب نے اسے کتاب کے بجائے ایک عجوبہ قرار دیا ہے جو واقعی ہمیں عجائبات اور حیرتوں کی دنیا میں لے جاتا ہے۔ ان خاکوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ مختصر ہیں اور شخصیت کی ایک مکمل اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں۔ فاضل مصنف نے ہر شخصیت کو اس کے مزاج اور خاص وصف کی بنیاد پر ایک عنوان دیا ہے۔ یہ کاوش اُن کی ندرتِ طبع کی آئینہ دار ہے۔ اس کتاب کا پہلا خاکہ قائداعظم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں ہے جسے مصنف نے ’دوراندیش‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس خاکے میں ایک ڈرامائی کیفیت بھی ہے اور کچھ ایسی معلومات بھی شامل ہیں جنہیں حاصل کرنے کا جناب فاروق عادل کو شرف حاصل ہوا۔ وہ اس پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ بیشتر خاکے معروف شخصیتوں کے ہیں، جن کو فاضل مصنف نے اپنی غیر معمولی قوتِ مشاہدہ سے کام لیتے ہوئے اس قدر دلچسپ، تخلیقی اور اچھوتے انداز میں پیش کیے ہیں کہ وہ ایک نئے روپ میں نظر آتی ہیں۔
جناب فاروق عادل خاکہ نویسی میں ایک نٹ کھٹ صحافی سے زیادہ ایک بلند پایہ ادیب دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے تمام شخصیات کا محبت اور ہمدردی کی نظر سے مطالعہ کیا ہے اور اُن میں خوبیاں تلاش کی ہیں۔ ان خاکوں میں معروف شخصیتیں بھی ہیں اور غیر معروف افراد بھی، مگر انہیں یکساں اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالصمد سرکار کا خاکہ بے حد اثر آفرین ہے جو سازِ دل پر مضراب کا کام کرتا ہے۔ زیادہ تر سیاسی اور صحافتی شخصیتیں ہیں جن کا پاکستان کی تاریخ کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ ان میں قائداعظم کے علاوہ مرزا جواد بیگ، میاں طفیل محمد، سید علی مردان شاہ پیر پگارا، ایئرمارشل اصغر خاں، پروفیسر غفور احمد، بیگم نصرت بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، رجب طیب اردوان، بے نظیر بھٹو، قاضی حسین احمد، اجمل خٹک، سردار فاروق احمد خاں لغاری، آصف علی زرداری، مشاہد اللہ خاں، الطاف حسین، جاوید عابدی، محمد صلاح الدین، عطاء الحق قاسمی اور حکیم محمد احمد سرور سہارن پوری شامل ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے آپ کی انسانوں میں موجود نیکیوں پر ایمان فزوں تر ہو جائے گا۔

تازہ ترین