• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف کیخلاف فیصلوں سے ن لیگ کو فائدہ ہوگا،بیرسٹر ظفر اللہ

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا ہے کہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹایاگیا تو وہ رہبر اور قائد بن جائیں گے، نواز شریف کو نااہل کرنے اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کے فیصلوں سے ن لیگ کو فائدہ ہوگا، جج جوڈیشل فنکشن سے ہٹ کر بات کرے تو شدید تنقید ہونی چاہئے، ن لیگی وزراء نے پرویز مشرف سے حلف آئین پر لیا تھا، ججوں کا پی سی او کے تحت حلف آئین پر حلف نہیں تھا۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عارف چوہدری،وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کامران مرتضیٰ اور پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیو بھی شریک تھے۔عارف چوہدری نے کہا کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی مزید بڑھے گی، عوامی ہمدردی تو آئین توڑنے والا یا سزا پانے والا شخص بھی حاصل کرسکتا ہے، یہاں کوئی سزا یافتہ شخص اتنا طاقتور ہو کہکسی کو بھی گالیاں دے سکے تو لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ کامران مرتضیٰ نے کہا کہ عام انتخابات یا سینیٹ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونے چاہئیں، سینیٹ کیلئے ن لیگ کے امیدواروں کے ٹکٹس نئے پارٹی سربراہ کی تصدیق کے بعد قبول کرلینے چاہئیں، آئین کے تحت پارلیمنٹ میں ججوں کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہوسکتی ۔مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ن لیگ قانونی جنگ ہارنے کے بعد عدلیہ کو تصادم کیلئے مجبور کررہی ہے،نواز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بولنے پر مجبور کیا ۔بیرسٹر ظفر اللہ نے مزید کہا کہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ کسی پارٹی کا سربراہ کیسا ہونا چاہئے، آئین میں کوئی شق نہیں کہ نااہل شخص پارٹی صدر نہیں بن سکتا، نااہل شخص کے پارٹی صدر نہ بننے کا فیصلہ تشریح کے ذریعے کیا گیا ہے، دنیا میں کہیں اس طرح کا قانون نہیں جو فیصلہ عدالت نے کیا ہے، نواز شریف کو نااہل کرنے اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کے فیصلوں سے لوگوں میں تاثر جائے گا کہ ایسا ن لیگ کو الیکشن سے ہٹانے کیلئے کیا جارہا ہے۔ کوئی وکیل کسی کیس کی دس لاکھ فیس طے کرتا ہے لیکن تیس جون سے پہلے پانچ لاکھ وصول کرتا ہے تو پانچ لاکھ روپے ظاہر کر کے ٹیکس دیتا ہے جو پانچ لاکھ ابھی وصول کرنے ہوتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کیا جاتا کسی جج نے بھی کبھی ایسا نہیں کیا ہوگا لیکن اس گراؤنڈ پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا۔ظفر اللہ خان نے کہا کہ نااہل شخص کی پارٹی صدارت سے متعلق قانون نواز شریف کی وجہ سے نہیں بنایا گیا بلکہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت نواز شریف کی وجہ سے کی، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی پہلے اس ترمیم کے حق میں تھے لیکن پاناما کیس شروع ہونے کے بعد دونوں جماعتوں نے ساتھ دینے سے انکار کردیا، ن لیگ آرٹیکل 62/1F ختم کرنے پر اعتراض کرتی رہی ہے، نواز شریف نے کبھی نہیں کہا وہ شیخ مجیب الرحمن کو آئیڈیلائز کرتے ہیں۔ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ ن لیگ تمام اداروں کا احترام کرتی ہے لیکن اگر کوئی ادارہ پارٹی کے خیال میں صحیح کام نہیں کرتا تو اس پر رائے دی جاسکتی ہے، وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر بھی یہی ہے کہ عدالت قانون کے مطابق فیصلہ کرلے، ججوں کا ریمارکس دینے کا رواج دنیا میں کہیں نہیں ہے، پاکستان میں پچھلے پانچ دس سال سے جو صورتحال ہے اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جج اپنے فیصلوں کے ذریعے بولیں ، کوئی بھی تبصروں کو برداشت نہیں کرسکتا۔بیرسٹر ظفر اللہ خان نے کہا کہ صرف ن لیگ نہیں پیپلز پارٹی بھی عدالتی فیصلوں پر تنقید کرتی ہے، پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتی ہے، پوری دنیا میں عدالتیں سیاسی کیسوں میں نہیں پڑتی ہیں، اگر جج اپنا کام صحیح طورپر کرتا ہے تو اس پر تنقید نہیں ہونی چاہئے، لیکن اگر جج جوڈیشل فنکشن سے ہٹ کر بات کرے تو شدید تنقید ہونی چاہئے، جج اپنے دائرے میں رہ کر بات کرے تو اس کے کنڈکٹ کو تنقید سے استثنیٰ ہے، جب وہ جج سے ہٹ جائے گا تو وہ جج کا کنڈکٹ نہیں لہٰذا وہ زیربحث آسکتا ہے۔ بیرسٹرظفر اللہ کا کہنا تھا کہ ن لیگی وزراء کے پرویز مشرف سے حلف اور ججوں کے پی سی او پر حلف میں فرق ہے، ن لیگی وزراء نے پرویز مشرف سے حلف آئین پر لیا تھا، ججوں کا پی سی او کے تحت حلف آئین پر حلف نہیں تھا، سیاسی جماعتوں، عدلیہ اور فوج کا ماضی ایک جیسا ہی ہے، عدلیہ آئین کے تحفظ کا حلف لیتی ہے، آئین توڑنے والا پی سی او آیا تو ججوں نے اس پر حلف لے لیا جو غلط ہے، ہر ادارے اور شخص کو سوچنا چاہئے کہ حکمرانی عوام کا حق ہے، ہم کسی ڈکٹیٹر کے ساتھ چاہے وہ سیاسی جماعت میں ہو، عدلیہ میں ہو یا مارشل لاء ہو اس کے ساتھ نہیں جائیں گے۔عارف چوہدری نے کہا کہ عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی مزید بڑھے گی، ن لیگ تاثر دے رہی ہے کہ نواز شریف کیخلاف فیصلوں سے ان کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، کیا کسی وزیراعظم کیخلاف اس وجہ سے فیصلے نہیں ہونے چاہئیں کہ اس کا انہیں سیاسی فائدہ ہوگا، نواز شریف نے سینیٹرز کے کاغذات نامزدگی پر بطور پارٹی صدر خود دستخط کیے حالانکہ پارٹی سیکرٹری جنرل یہ دستخط کرسکتا ہے، سینیٹ کے انتخابات تو ہوں گے لیکن اس میں وہ لوگ نہیں ہوں گے جن کے کاغذات پر نواز شریف نے دستخط کیے۔عارف چوہدری کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے امیدواروں کے ٹکٹ کینسل ہوئے تو سینیٹ میں کسی اور جماعت کی اکثریت ہوجائے گی، آئین توڑنے والا یا سزا پانے والا شخص بھی عوامی ہمدردی حاصل کرسکتا ہے، یہاں اصول ہے کہ اگر کوئی سزا یافتہ شخص اتنا طاقتور ہو کہ کسی کو بھی گالیاں دے سکے تو لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ بہادر آدمی ہے،نواز شریف محب وطن ہوتے تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر اس انداز میں تقریر نہیں کرتے۔عارف چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کی ہدایت پر عدلیہ سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کی ہے، مریم نواز کو ماننے والے ن لیگ میں آگے آرہے ہیں، عدالت میں ججوں کو ریمارکس نہیں دینے چاہئیں ، نواز شریف کو جیل جانا سوٹ کرتا ہے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ نااہل شخص کی پارٹی صدارت سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا ہوں، آرٹیکل 17 میں بہت محدود قدغن ہے اس میں مس ڈیکلریشن کی بات شامل نہیں ہے ،یہ آرٹیکل سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے جو 62/1F کی کسی شق کے تابع نہیں ہے، اس آرٹیکل کے تحت کسی شخص کو سیاسی سرگرمیوں سے نہیں روکا جاسکتا اور سیاسی سرگرمی کا مطلب یہ نہیں کہ وہ شخص صرف کارکن رہے گا۔کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ عدلیہ اور حکومت کا تصادم ملک کیلئے فائدہ مند نہیں ہے، اگر کوئی کہتا ہے اسے سیاسی فائدہ ہوگا تو یہاں بات سیاسی فائدے کی نہیں ملک کے فائدے کی ہے، عام انتخابات یا سینیٹ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہونے چاہئیں،سینیٹ کیلئے ن لیگ کے امیدواروں کے ٹکٹس نئے پارٹی سربراہ کی تصدیق کے بعد قبول کرلینے چاہئیں، پچھلے دس دنوں میں وزیراعظم کا نکتہ نظر تبدیل ہوا ہے۔کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ میں ججوں کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہوسکتی ، عدالتی فیصلوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر عدلیہ یا ججوں کے بارے میں غلط زبان استعمال نہیں کی جاسکتی ہے، سیاستدان ہوں یا عدلیہ سب نے ماضی میں ضرورت کے تحت سمجھوتے کیے ہیں۔مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ پیپلز پارٹی کبھی بھی عدلیہ کے مقابلہ پر نہیں آئی، عدلیہ سے متعلق جو رویہ نواز شریف کا ہے پیپلز پارٹی نے کبھی ایسا رویہ نہیں اپنایا، عدالت کی طرف سے جو رعایت ن لیگی قائدین کو ہے وہ پیپلز پارٹی کے وزیراعظم کو نہیں تھی، پتا نہیں نواز شریف کے پاس کون سی جادو کی چھڑی ہے کہ جو چاہے کہتے ہیں اور عدلیہ کچھ نہیں کہتی، نواز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو بولنے پر مجبور کیا ، ن لیگ توہین عدالت کا سلسلہ مزید آگے بڑھائے گی، ن لیگ قانونی جنگ ہارنے کے بعد عدلیہ کو تصادم کیلئے مجبور کررہی ہے۔مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ وقت نے ثابت کردیا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل تھا، جسٹس نسیم حسن شاہ نے مانا کہ ہم نے ضیاء الحق کے کہنے پر ذوالفقار علی بھٹو کو سزا دی۔

تازہ ترین