اسلام آباد(رپورٹ:فخر درانی) نیب اور حکومت پنجاب کے درمیان تنازع کے مرکزی کردار احد چیمہ خود کرپشن کے خلاف برسر پیکار رہے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے کی حیثیت سے انہوں نے 168اہلکاروں کو کرپشن کے الزام میں برطرف کیا۔پنجاب حکومت اور وہاں کی بیورو کریسی کئی بڑے منصوبوں کی کامیابی سے تکمیل کا کریڈٹ احد چیمہ کو دیتے ہیں۔ جس پر انہیں تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے بڑے پیمانے پر ادارہ جاتی اصلاحات بھی کیں۔ حکومت پنجاب نے جہاں نیب کے حالیہ غیر معمول اقدامات پر ناراضی کا اظہار کیا۔ وہ 22فروری کو احد چیمہ کی گرفتاری سے بھی پریشان ہے۔بیورو کریسی کے ایک سینئر رکن کے مطابق وہ احد چیمہ کو اچھی شہرت کے حامل افسر کے طور پر جانتے ہیں۔ ایک ذریعہ نے دعویٰ کیا کہ احد چیمہ کی گرفتاری کے پیچھے ایک بزنس ٹائیکون کے ہاتھ کو نظر انداز نہیں دیا جاسکتا۔احد نے ان کے کئی ترقیاتی منصوبوں کو نہ صرف روکا بلکہ ٹائیکون کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی۔ پنجاب کی بیورو کریسی نے احد چیمہ کی گرفتاری پر نہ صرف شدید ردعمل ظاہر کیا بلکہ قلم چھوڑ ہڑتال بھی کی۔ دوسری جانب نیب بھی اپنے موقف پر قائم ہے۔ بیورو کریسی کے ردّ ِعمل پر اپنے باقاعدہ جواب میں نیب کا موقف ہے کہ احد چیمہ کی گرفتاری ان کے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ قانون نیب کو تفتیش و تحقیقات اور کسی کے بھی خلاف کرپشن کے خلاف بلا امتیاز ثبوت اور شہادتیں اکٹھا کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ انہیں قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا ہے۔ عدالت ہی کو فیصلے کا اختیار ہے ۔ احد چیمہ پر کرپشن میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات ہیں۔