• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وطن عزیز میں دہشت گردی گزشتہ عشرہ ڈیڑھ عشرہ کے دوران جس طرح ایک ناسور کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس نے جس انداز میں ہر شعبہ زندگی پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتے ہوئے اسے عملی طور پر معطل و مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ عوام کے جان و مال کو تباہ کرنے والے ان سفاک مجرموں کو انسانی حقوق کی آڑ میں کوئی رعایت نہ دی جائے کیونکہ جو لوگ سینکڑوں انسانوں کو بہ یک وقت موت کے گھاٹ اتار کر معاشرے میں خوف اور دہشت پھیلانے کے مرتکب ہوتے ہیں وہ کسی بھی صورت میں نرمی کے مستحق نہیں۔ قرآن حکیم میں رہزنی و ڈکیتی کرنے والوں کے ہاتھ اور پائوں مخالف اطراف سے کاٹنے کی جو سزائیں تجویز کی گئی ہیں اس پر نام نہاد انسانی حقوق کے مغربی پرچارک اور ان کے حامی بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں لیکن امر واقع یہ ہے کہ جو لوگ دوسروں کے انسانی حقوق کا احترام نہیں کرتے ان کے اپنے انسانی حقوق کا بھی کوئی پاس نہیں کیا جانا چاہئے سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کیلئے سزائیں بھی فوری اور عبرتناک ہونا ضروری ہے اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کی اپیلوں کے دوران پانچ افراد کے قاتل ظفر اقبال کی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے ریمارکس میں یہ بالکل درست کہا ہے کہ ایک ایسے عالم میں جب ہمارا ملک بدترین دہشت گردی کا شکار ہے اور آئے روز افواج پاکستان کے جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے ساتھ عام طریقے کا برتائو کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ سب سے زیادہ ملک سے وفادار کون ہے وہ لوگ جو آئین ہی کو نہیں مانتے وہ اسی آئین کے تحت انصاف کیسے مانگ سکتے ہیں۔ اگر ہماری تمام عدالتیں اسی اصول کو مدنظر رکھ کر سنگین جرائم کے مجرموں کو فوری اور سخت سزائیں دیں تو معاشرے سے بہت جلد بدامنی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس کے یہ ریمارکس گوش ہوش رکھنے والوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں۔
تازہ ترین