اگر..... محمد رفیع بٹ

November 26, 2021

والدین بےغرض، غیرمشروط محبت، خلوص، اپنائیت اور چھائوں کا استعارہ ہوتے ہیں۔ شاید ہی دنیا میں کوئی ایسی اولاد ہو گی جسے اپنے والدین سے عقیدت و محبت نہیں رہی ہوگی۔ یہاں تک کہ میری طرح کے ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے اپنے والدین میں سے باپ یا ماں کو دیکھا تک نہیں ہوگا (میں دو ماہ کا تھا جب میرے والد کی وفات ہوئی) لیکن ان کی محبت کی اسیری میں پھر بھی مبتلا ہوں گے۔ میں جب چھوٹا تھا تو میری والدہ مجھے محمد رفیع بٹ کے بارے میں اکثر باتیں سنایا کرتیں۔ ان کے نزدیک رفیع بٹ دنیا کا عظیم ترین انسان تھا (اور تب تک میں سمجھتا تھا کہ وہ ایک روایتی مشرقی بیوی ہونے کے ناطے ایسا کہتی ہیں)۔ وہ مجھے رفیع بٹ کی کاروباری کامیابیوں اور اوائل عمری میں ذمہ دارانہ حساس کردار کے حوالے سے بتاتیں۔ ان کے مطابق محمد رفیع بٹ نا صرف خود اپنی محنت، پیش بینی اور لگن کے باعث حیران کن کامیابیاں سمیٹتے رہے بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں اور مسلمانوں کو بھی ترقی کی راہ پر ڈالتے رہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے حصول کی جدوجہد میں اپنا سرمایہ، تعلقات، وقت اور صلاحیتیں صرف کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ وہ قائدِاعظم محمد علی جناح کو مسلمانوں کا نجات دہندہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنا آئیڈیل بھی سمجھتے ان پر بھرپور اعتماد کرتے اور ان کی ہر طرح سے معاونت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔ دوسری طرف یہی عالم قائدِاعظم محمد علی جناح کا تھا کہ وہ عمروں کے واضح فرق کے باوجود محمد رفیع بٹ کی سوچ، کمٹمنٹ، مسلمانوں کے لیے جذبہ ایثار اور کاروباری حکمتِ عملی کے ناصرف مداح تھے بلکہ مختلف معاملات میں ان سے رائے لیتے اور ان کی آرا پر مِن و عن عمل پیرا ہوتے۔ والدہ بتاتیں کہ بہت بڑے بڑے سیاستدان، کاروباری، صنعتکار، صحافی اور حکومتی عہدیداررفیع بٹ سے میل جول رکھتے اور قائدِاعظم تک رسائی کے لیے رفیع بٹ سے درخواست گزار ہوتے۔

وقت پر لگا کر اڑتا رہا میں اپنی معاشی حیثیت دیکھتا تو ماں کی باتیں مجھے افسانہ محسوس ہوتیں اور بڑی حد تک میں یہ سمجھتا کہ والدہ محض ایک باوفا بیوی ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے میرے والد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہیں۔ میں نے جب چالیس سال کی عمر تک بےتحاشا کامیابیاں سمیٹ لیں بہت شاندار کاروبار جما لیا بہت بڑا عالیشان گھر اور قیمتی گاڑیاں حاصل کر لیں تو میں محسوس کرتا کہ مجھے اپنی یہ کامیابیاں کچھ خاص اطمینان یا سرخوشی نہیں دے پائیں۔ میں جسے اعزاء نکما، لاپروا اور تعلیم میں انتہائی سست کہہ کر زندگی میں ناکام ہونے کا تمغہ تھماتے آج میری کامیابی ان کا منہ چِڑا نے اور مجھے احساسِ تفاخر میں مبتلا کرنے کے لیے کافی تھی لیکن پھر بھی مجھے کچھ خاص خوشی نہ ہوتی تو میں بے چینی محسوس کرتا۔ مرحوم عارف نظامی کی ترغیب پر 40سال والد سے بےنیاز زندگی گزارنے کے بعد جب میں نے والد کے متعلق تحقیق شروع کی تو مجھے دہرے چیلنجز کا سامنا تھا۔ ایک تو اپنے والد کے متعلق والدہ کی بتائی ہوئی کہانی کے جھوٹ نکلنے کا خوف دوسرا عوامی حلقوں سے اس تنقید کا خدشہ کہ پیسے کے بل پر میں اپنے والد کو بڑا ثابت کرنے چلا ہوں۔ مستند معلومات اور حقائق کے حصول کے لیے مجھے بے پناہ محنت کرنا پڑی۔ قیامِ پاکستان میں خدمات سرانجام دینے والے باقی ماندہ لوگوں کو ڈھونڈنے اور ملنے سے والدہ کی باتوں کی تصدیق ہوتی لیکن میں ناقابلِ تردید شواہد کی تلاش میں سرگرداں تھا۔ قومی آرکائیوز سے قائد اور رفیع بٹ کے درمیان ہونے والی خط و کتابت کے کچھ نمونے اور نادر تصاویر میسر آئیں تو میں جو ہمیشہ اپنے والد کی کمی کو کسک کی طرح محسوس کرتا، اس کو شدت سے محسوس کرنے لگا۔ میں نے جب محمد رفیع بٹ کو انتہائی کم عمری میں ناقابلِ یقین کامیابیوں پر کامیابیاں سمیٹتے دیکھا تو مجھے اپنی کامیابیاں ہیچ نظر آنے لگیں۔ مجھے تو شاید اس کاروباری مسابقت،چیلنجز اور منفی رویوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن سے نبر د آزما ہوتے ہوئے محمد رفیع بٹ نے ہندوستان میں اپنی سب سے بڑی آلاتِ جراحی کی صنعت لگائی، مسلمانوں کا پہلا بینک قائم کیا، نئی صنعتوں کو ہندوستان میں متعارف کروایا اور سب سے بڑھ کر جس نے قیامِ پاکستان کے لیے قائدِ اعظم کی رفاقت میں اپنا سب کچھ وقف کر دیا۔ وہ آنسو جوبرسوں سے میری آنکھوں میں کہیں منجمد تھے ٹِپ ٹِپ برسنے لگے۔ میں اپنے والد سے محرومی کی اذیت کو اس عمر میں آکر اتنی شدت سے محسوس کر رہا تھا جب اپنی اولاد ہر خوشی اور غم سے بے غرض بنا دیتی ہے۔ مجھے ماں کی کہی ایک ایک بات یاد آنے لگی میں نے دستاویزی ثبوتوں کے آئینے میں والدہ کی باتوں کا موازنہ کیا تو محمد رفیع بٹ کو کہیں عظیم، فراخ دل، پیش بین اورقائدِاعظم کا انتہائی معتمد پایا۔ پاکستان کے قیام کے لیے رفیع بٹ کی خدمات سامنے آئیں تو مجھے احساسِ طمانیت سے آشنائی ہوئی۔ وہ احساسِ تفاخر جو مجھے میری کامیابیاں نہ دے سکیں میرے والد کی دریافت نے بخش دیا۔ والد کے متعلق تحقیق کے دوران ہی میری قائدِ اعظم سے آشنائی ہوئی، ان کی شخصیت کا بغور جائزہ لیا تو میں پاکستان کے قیام کے مقاصد اور ضرورت سے آشنا اور پاکستانیت کے گداز میں مبتلا ہوا۔ میں جو پیسے کا پہلے بھی حریص نہ تھااپنے والد کے تشخص کو بچانے کے لیے مزید محتاط ہو گیا، اس جستجو میں لگا تو کاروبار سے بالکل ہی بے نیاز ہو گیا، کاروباری نقصانات اس کے نتیجے میں ہونا لازمی امر تھا لیکن والد کی دریافت ایسی سرشار ی تھی کہ اس نے مجھے کچھ اور سوچنے ہی نہ دیا۔ میں رفیع بٹ اور قائدِاعظم کے متعلق ہی کھوج میں لگا رہا۔ ایک مرتبہ سابق وزیرِاعظم محترمہ بےنظیر بھٹو نے مجھ سے سوال کیا کہ بٹ صاحب کبھی آپ کو ایسا لگا کہ آپ کے والد آپ کے ساتھ ہوں تو..... میں نے محترمہ کو ترنت جواب دیا کہ محترمہ مجھے تو یہ بھی لگتا ہے کہ وہ مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ محمد رفیع بٹ نے سولہ سال کی عمر میں اپنے والد کی وفات کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا اور انتہائی قلیل عرصے میں حیران کن منازل طے کیں۔ بد قسمتی سے قائد کی رحلت کے محض دو ماہ بعد رفیع بٹ صرف 39سال کی عمر میں 26نومبر 1948کو کراچی سے لاہور آتے ہوئے فضائی حادثے میں شہید ہوگئے۔ میں سوچتا ہوں قدرت کی جانے کیا مصلحت تھی لیکن اگر زندگی انہیں کچھ مہلت اور دے دیتی تو شاید پاکستان کی معاشی حالت سنوارنے میں وہ اپنا کچھ کردار ادا کر پاتے۔ یا اگر وہ قائد کی وفات سے پیشتر شہادت پاجاتے تب ہی شاید قائد رفیع بٹ کی خدمات کو اجاگر کر کے انہیں تاریخ کی گرد میں گم نہ ہونے دیتے۔ یہی ’’اگر‘‘ میری سوچوں پر حاوی رہتاہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)