ترک لیرا کی ناقدری

November 27, 2021

صدر ایردوان کے 2002میں برسر اقتدار آنے سے قبل تک دنیا بھر میں ترک لیرےکی کوئی قدرو قیمت نہ تھی یعنی ایک ڈالر میں ڈیڑھ ملین سے زائد لیرے حاصل کر لیے جاتے تھے جنہیں سنبھالنا بڑا مشکل ہوجاتا تھا اور بوریوں میں یہ رقم رکھنی پڑتی تھی۔ روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں ہر روز اضافہ ہونے لگا تھا، اگر ایک روٹی کی قیمت ایک ملین تھی تو اگلے روز اسی روٹی کو دو ملین لیرے میں فروخت کیا جاتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بینکوں میں روزانہ کی شرح سود وقتاً فوقتاً ساٹھ فیصد سے بلند رہتی تھی جس کے نتیجے میں انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے بینکوں میں رقوم جمع کرواتے ہوئے سود کی کمائی کا رواج عام ہوگیا تھا۔ تاہم سن2002 ءمیں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے برسر اقتدار آنے کے فوراً بعد ملک کی اقتصادیات کی طرف توجہ دی اور ملک کی کرنسی کو مضبوط بنانے کے لیے متعدد اقدامات کیے جن میں سے سب سے اہم قدم ترک لیرے سے چھ صفر ختم کرتے ہوئے ایک ڈالر کو ایک اعشاریہ تین لیرے کے مساوی قرار دےکر ملک میں نئی ٹرکش لیراکرنسی کومتعارف کروایا گیا اور یوں ٹرکش لیرے کو پہلی بار دنیا میں ایک مستحکم کرنسی کے طور پر دیکھا جانے لگا، ترک لیرے کو بوریوں میں جمع کرنے کی بجا ئے بٹووں میں جگہ دی جانے لگی۔ اس طرح کئی دہائیوں کے بعدایردوان اور ان کے اقتصادی ماہرین نے یہ کرشمہ کر دکھایا اور یوں عوام کی طرف سے ایردوان اور ان کے اقتصادی ماہرین پر اعتماد کا اظہار کیا جانے لگااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترکی نے برسوں کا سفر ہفتوں اور دنوں میں طے کرتے ہوئے اقتصادی ترقی اور خاص طور پر دفاعی صنعتی پیداوار میں نئے ریکارڈ قائم کیے جو مغربی ممالک کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے اور مغربی ممالک نے ترکی کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنانے شروع کردیے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں ترکی کے روس سے ایس 400 میزائل سسٹم کی خریداری اور ترکی میں اس کے نصب کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری آگئی اور صدر ٹرمپ نے صدر ایردوان کو روس سے میزائل سسٹم کی خریداری سے باز نہ آنے کی صورت میں اس کی اقتصادیات کو تباہ کرنے کی دھمکی دے ڈالی۔ صدر ٹرمپ کی اس دھمکی نے اپنا کام کر دکھایا اور ترک لیرے کی نہ ختم ہونے والی گراو ٹ کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ ترکی اگرچہ کورونا وائرس کے آغاز سے لے کر اب تک صحت کے شعبے میں اپنے عوام کو دی جانے والی سہولتوں اور مفت علاج کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مثالی ملک کی حیثیت اختیار کیے ہوئے ہے لیکن اس وبا کے منفی اثرات سے ترکی کی اقتصادیات کو شدید نقصان بھی پہنچا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے لیرے کی قدرو قیمت میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ٹرکش لیرے کی قدرو قیمت میں بیس فیصد کے لگ بھگ کمی دیکھی گئی جبکہ گزشتہ سال ماہ نومبر میں ایک ڈالر میں آٹھ ٹرکش لیرے آتے تھے تو اب(تادم تحریر) ایک ڈالر میں تیرہ سے زائد ٹرکش لیرے حاصل کیے جاسکتے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ٹرکش لیرا مزید گراوٹ کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

اگرچہ صدر ایردوان پچھلے کئی دنوں سے حالات کے بہتر ہونے کی نوید سنا رہے ہیں لیکن لگتا یہی ہے کہ ملک کے اقتصادی حالات ان کے کنٹرول سے نکل چکے ہیں۔ حالات پر قابو پانے کے لیے انہوں نے کئی بار اسٹیٹ بینک کے گورنر اور وزیر خزانہ کو تبدیل بھی کیا لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اگر صورتِ حال ایسی ہی رہی تو حزبِ اختلاف سن 2023 کے صدارتی انتخابات کی جگہ انہیں قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کرسکتی ہے اور پھر صدر ایردوان کے لیے اکیاون فیصد ووٹ حاصل کرنا ممکن نہ رہے گا۔اس لئےصدر ایردوان نے چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو بھی اپنے اتحاد میں شامل کرنے کے لیے ان کے رہنمائوں سے مذاکرات بھی شروع کردیے ہیں اور اس سلسلے میں مرحوم نجم الدین ایربکان کی پارٹی کے موجودہ چیئرمین "تےمل قارا مولا اولو" سے مذاکرات کرتے ہوئے انہیں اپنے اتحاد میں شامل کرنے کی دعوت دینے کے علاوہ صدارتی انتخابات میں اکیاون فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط کی بجائے پہلے نمبر پر آنے والے اتحاد کے امیدوار کو صدر منتخب کرنے کے معاملے پر بھی بات چیت کی ہے۔ملک کی اپوزیشن جماعتیں ابھی تک اس صورتِ حال کو اپنے حق میں بدلنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں حالانکہ اس وقت عوام بھی ترک لیرے کی ناقدری ہونے کی وجہ سے شدید اضطراب کا شکار ہیں اور برسر اقتدار جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی سے منہ پھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر صدر ایردوان کے مخالف اتحاد نے اس صورتِ حال سے استفادہ نہ کیا اور ملک میں قبل از وقت صدارتی اور پارلیمانی انتخابات نومبر 2022 میں کروانے کی مہم نہ چلائی اور اس میں کامیابی حاصل نہ کی تو پھر صدر ایردوان حالات کو اپنے حق میں بدل سکتے ہیں کیونکہ وہ اس سے قبل بھی اپنی مہارت کے ذریعے کامیابی حاصل کرچکے ہیں۔ صدر ایردوان نے اسی ہفتے عوام سے خطاب میںاور پھر کابینہ کے اجلاس کے بعد کہا ہے کہ ’’ہم وہ حالات کی نزاکت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، ہم نے ملک میں شرح سود کو کم کرتے ہوئے ختم کرنے کا عوام سے جو وعدہ کررکھا ہے اس کو پورا کرنے کی ہمیں سزا دی جا رہی ہے لیکن ہم عوام سے کیے گئے اس وعدے کو ضرور پورا کریں گے اور ملک میں سرمایہ کاری کرنے اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں اور اس وقت ترکی دنیا میں شرح ترقی کے لحاظ سے سب سے آگے ہے اور چند ماہ کے اندر اندر ملک میں خوشحالی آئے گی اور جون 2023ء کے صدارتی انتخابات میں ہماری ہی کی جماعت کو کامیابی حاصل ہوگی‘‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)